کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 15
اس کے متعلق اپنے ہی حنفی عالم علّامہ ابن الترکمانی کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
علّامہ موصوف اپنی کتاب(الجوہر النقی فی الرد علیٰ البیہقی )میں اس روایت کے نیچے لکھتے ہیں :
(ظَاہِرُ کَلَامِہٖ اَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ھَذَا الْحَدِیْثِ إِلَّا الْاِنْقِطَاعُ،وَسَالِمٌ مَتْرُوْکٌ حَکَاہُ صَاحِبٌ الْمِیْزَانِ عَنِ الدَّارَقُطْنِیِّ) [1]
’’امام بیہقی کے ظاہرکلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں صرف انقطاع کی عِلّت ہے۔حالانکہ اس کا ایک راوی سالم(بن غیلان) متروک ہے،جیسا کہ میزان الاعتدال والے نے امام دارقطنی سے نقل کیا ہے۔‘‘
یہ تو آپ کے اپنے عالم کی گواہی ہے کہ یہ حدیث صرف انقطاع کی وجہ سے ہی ضعیف نہیں بلکہ اس کا ایک راوی سالم بن غیلان بھی متروک ہے۔
اب مزید وضاحت ملاحظہ فرمائیں :
اس روایت میں کئی عِلّتین ہیں جن کی وجہ سے یہ قابلِ حجت نہیں :
1پہلی عِلّت تو وہ ہے جسے امام بیہقی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد بیان کیا ہے کہ یہ روایت منقطع ہے۔کیونکہ یہ حدیث یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں حالانکہ انھوں نے رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے۔ بلکہ یہ آخری زمانے کے تابعین میں سے ہیں ۔یہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ۴۳ سال بعد پیدا ہوئے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے کے گیارہویں سال اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور یزید بن ابی حبیب ہجرت کے ۵۳ ویں سال میں پیدا ہوئے۔اور ۱۲۸ھ میں فوت ہوئے۔پس درمیان میں ایک یا ایک سے زائد واسطوں کاانقطاع ہے۔[2]
[1] الجوھرالنقی فی الردعلیٰ البیہقی ۲؍۳۱۵
[2] تہذیب التہذیب،ص ۲۷۹،ج۱۱