کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 12
2حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے بھی کندھوں کے برابر اپنے ہاتھوں کا اٹھانا مروی ہے۔
چنانچہ ان کایہ عمل ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ،المنتقیٰ ابن الجارود،ابن خزیمہ،ابن حبان اور بیہقی وغیرہ میں مذکوروموجود ہے۔
3ان کے علاوہ بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار بھی موجود ہیں کہ وہ نماز میں کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے تھے۔پس معلوم ہوا کہ یہ صرف عورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائیں ،بلکہ مردوں کے لیے بھی کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا سنّت ہے۔ہاں کانوں کی لؤوں کے برابرہاتھ اٹھانابھی ثابت ہے۔کبھی کانوں کے برابر اور کبھی کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا چاہیے۔عورتوں یا مردوں کے ساتھ اس کی تخصیص کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا یہ اثر ہماری دلیل ہے کہ مرد وعورت کی نماز کی ہیئت میں کوئی فرق نہیں ،کیونکہ صحابیۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتی تھیں ،حالانکہ وہ عورت ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے تھے،حالانکہ یہ مرد تھے۔اگر مردو عورت کی نماز میں فرق ہوتا تو جہاں تک مرد ہاتھ اٹھاتے وہاں تک حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا نہ اٹھاتیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ احناف نے یہ اثر اپنے غلط خیال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہے،لیکن اس اور دوسرے مذکورہ اثر سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ نماز میں رفع الیدین کا مسئلہ ہے۔اس کو احناف نے ترک کیا ہواہے۔نہ عورتیں اس پر عمل کرتی ہیں نہ مرد۔حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتیں بھی اس پر عمل کرتی تھیں اور مرد(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) بھی اس کے عامل تھے۔اللہ کے فضل سے اس اثر کو ہم صحیح تسلیم کرتے ہیں اور جو مسئلہ اس سے معلوم ہوتا ہے اس پر ہم اور ہماری عورتیں بھی عمل کرتی ہیں ۔اللہ آپ لوگوں کو بھی اس سنّت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین