کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 11
مردوں کے لیے بھی ثابت ومسنون ہے کیونکہ یہ اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے جس کی زندگی مرد وعورت سب کے لیے یکساں نمونہ ہے۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ،جس کتاب (جزء رفع الیدین) سے یہ اثر نقل کیا گیاہے اُسی کے شروع میں پہلی حدیث نکال کر دیکھ لیجیئے! آپ کووہ ان الفاظ سے نظر آجائے گی:
((عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا کَبَّرَ لِلصَّلوٰۃِ حَذْوَمَنْکِبَیْہِ وَاِذَااَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ وَاِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ فَعَلَ ذٰلِکَ)) [1]
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تکبیر (تحریمہ)کہتے وقت اور رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اپنا سر اٹھاتے وقت اور دورکعت سے اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔‘‘
اب آپ ہی بتائیں کہ کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا کیاصرف عورتوں کے لیے سنّت ہے۔(جیسا کہ آپ نے حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کا اثر پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے) یا یہی مردوں کے لیے بھی سنّت ہے؟یہ تو مرفوع حدیث سے میں نے ثابت کیا کہ کندھوں کے برابرہاتھ اٹھانانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ اور مردوزن کیلئے اس سنّت کے یکساں ہونے کا پتہ دینے والی ایسی بہت سی دیگراحادیث بھی موجود ہیں ۔اوراب آئیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس سنّت پر عمل کرنا بھی ملاحظہ فرمائیے:
1حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا ابوداؤد،مؤطا امام مالک،بیہقی اورجزء البخاری وغیرہ میں مروی ہے کہ وہ نماز میں اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔
[1] جزء رفع الیدین امام بخاری ایضاً