کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 10
کی سند کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں ۔‘‘
اوریہ معروف بات ہے کہ مجہول راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔جیسا کہ فتح الباری اور توجیہ القاری میں ہے:
(اَلْجِھَالَۃُ تَسْتَوْجِبُ ضُعْفَ الْحَدِیْثِ وَلَا حُجَّۃَ فِیْ رِوَایَۃِ الْمَجْھُوْلِ) [1]
’’ کسی راوی کا مجہول ہونا ضُعفِ حدیث کاسبب بنتا ہے اور مجہول راوی کی روایت حُجّت نہیں ہوتی۔‘‘
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین(ہاتھ اٹھانے) کی روایات توثابت ہیں ،لیکن ان میں عورت کا ذکر نہیں ہے۔ اور اس حدیث کے ضُعف پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے میرے محترم نے اِس حدیث کے بعد ذکر کیا ہے۔کیونکہ اُس میں یہ ہے کہ صحابیۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا نماز میں کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتی تھیں اور اِس میں عورتوں کے لیے چھاتی(سینے) کے برابر ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے۔اگر عورتوں کے لیے چھاتی کے برابر ہاتھ اٹھانے کا حکم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہواہوتا توحضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کبھی بھی اس حکم کی مخالفت نہ کرتیں ۔
احناف کی دوسری دلیل :
حضرت عبدربہ سلیمان بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں ۔ [2]
اہلِ حدیث کاجواب:
فاضل ِمحترم نے اس اثرسے یہ دلیل لی ہے کہ مردوعورت کی نماز میں فرق ہے۔مگر کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا جیسا عورتوں کے لیے مسنون ہے ایسا ہی
[1] فتح الباری ۱؍۱۴۶ توجیہ القاری، ص ۱۹۰
[2] جزء رفع الیدین للامام البخاری،ص۷