کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 73
’’یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم وخبیر کی طرف سےبالتفصیل بیان کر دی گئی ہیں(وہ یہ)کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔‘‘
یہ آیات محکمات اوراس مفہوم کی قرآن مجید کی دیگر تمام آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف اللہ وحدہ کی اخلاص کے ساتھ عبادت واجب ہے اوریہی دین کی اصل اورملت کی اساس ہے ۔ان آیات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں اورانسانوں کی تخلیق، انبیاء کی بعثت اورکتابوں کے نزول میں بھی یہی حکمت کارفرما ہے، لہذا تمام مکلفین پر یہ واجب ہے کہ اس امر کی طرف کامل توجہ دیں اوراسے سمجھنے کی پوری پوری کوشش کریں اور آج نام کے مسلمان جن بہت سی باتوں میں مبتلا ہوچکے ہیں ان سے پرہیز کریں، مثلا انبیاء واولیاء کے بارے میں غلو سے کام لینا، ان کی قبروں پر عمارتیں، مسجدیں اورقبے بنانا، ان سے سوال کرنا اور مدد مانگنا، حاجات کو پورا کرنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرنا، ان سے سوال کرنا، پریشانیوں کے ازالہ، بیماریوں کے لیے شفااوردشمنوں پر فتح ونصرت حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرنا اوراس طرح کے دیگر بے شمار امور ہیں جوشرک اکبر کی قسمیں ہیں۔
کتاب اللہ کے اس مضمون کی موافقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی صحیح احادیث بھی ہیں، چنانچہ صحیحین میں حضرت معاذرضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’ کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟اوربندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟‘‘ حضرت معاذ نے عرض کیاکہ ’’اللہ اوراس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔‘‘تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ کا بندوں پریہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اوربندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ شرک نہ کرے، اسے وہ عذاب نہ دے ۔‘‘
صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتے ہوئے فوت ہو تو وہ جہنم رسید ہوگا ۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ یہ اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ بناتا ہوتو یہ شخص جنت میں داخل ہوگااورجو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ یہ اس کے ساتھ شرک کرتا ہو توایسا شخص جہنم رسید ہوگا۔‘‘
اس مفہوم کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں، یہ مسئلہ بہت اہم اورعظیم مسئلہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث ہی اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کی دعوت دیں، شرک کی نفی کریں، چنانچہ جس مقصد کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اس کی تبلیغ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت احسن انداز میں فرض اداکیا حتی کہ اللہ کی راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت اذیتیں پہنچائی گئیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صبر کو خوب خوب مظاہر ہ کیا اور دعوت وتبلیغ میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی حتی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بتوں اور پروہتوں سے جزیرۃ العرب کو پاک کردیا، لوگ فوج درفوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہوگئے، کعبۃ اللہ کے گردوپیش اوراس کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا گیا، لات، عزی، منات اورقبائل عرب کے دیگر تمام بتوں کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا گیا جس سے جزیرۃ العرب میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو سربلندی اوردین اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا ۔پھر مسلمان جزیرۃ العرب سے باہر دعوت وجہاد کے کام کے لیے متوجہ ہوئے اوراس سے اللہ تعالیٰ نے سعادت مند لوگوں کو ہدایت سے بہرہ مند فرمایا اوردنیا کے اکثر حصوں میں حق اورعدل کا بول بالا ہوگیا اور اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہدایت کے امام، حق کے قائد اورعدل واصلاح کے داعی بن گئے اورپھر ان کے بعد تابعین وتبع تابعین نے