کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 67
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام پاک ہے، لہٰذا جس نے اس کی تو ہیں کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی تو ہیں کی ان تمام مسائل کو علماء نے اپنی کتب کے‘‘باب حکم المرتد’’میں بیان کیا ہے، چنانچہ مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب کی کتب فقہ میں ایک ایسا باب ہے جسے‘‘باب حکم المرتد’’کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس باب میں کفر وضلالت کی تمام اقسام کو بیان کیا گیا ہے، یہ باب لائق مطالعہ ہے، خصوصا آج کے اس دور میں جب کہ ارتداد کی بہت سی قسمیں پیدا ہوچکیں ہیں اور بہت سے لوگوں کے سامنے صورت حال واضح نہیں ہے، لہٰذا جو شخص کتب فقہ کے اس باب کا غور سے مطالعہ کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ نواقض اسلام، اسباب ارتداد اور کفر وضلالت کی انواع واقسام کون کون سی ہیں۔ دوسری قسم شرک اصغر ہے۔اس سے مراد وہ کام ہے جسے نصوص میں شرک کے نام سے موسوم کیا گیا ہے لیکن شرک کی یہ قسم شرک اکبر سے کم تر درجہ کی ہے۔مثلا ریاکاری وغیرہ جیسے کوئی شخص ریاکاری کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرے یا ریاکاری کے لیے نماز پڑھے یا ریاکاری کے لیے دعوت الی اللہ کا کام کرے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’’ اس سے مراد ریا ہے ۔‘‘اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاری(دکھاوا)کرنے والوں سے فرمائے گا:’’جاؤ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں عمل کرتے تھے، کیا ان کے پاس تمہارے لیے کوئی جزا ہے؟‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ محمود بن لبیداشہلی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، طبرانی، بیہقی اور محدثین کی ایک جماعت نے بھی اسے محمود مذکور سے روایت کیا ہے۔یہ محمود صغیر صحابی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے لیکن اہل علم کے نزدیک صحابہ کرام کی مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں اور بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں۔ اسی طرح کسی آدمی کا یہ کہنا کہ’’جو اللہ اور فلاں چاہے، اگر اللہ اور فلاں شخص نہ ہوتا‘‘یا یہ جملہ کہ’’یہ اللہ اور فلاں کی طرف سے ہے ۔‘‘تو اس طرح کہنا بھی شرک اصغر ہے جیسا کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہے جسے امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ نہ کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یہ کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر فلاں چاہے ۔‘‘ اسی طرح امام نسائی نے’’قتیلہ‘‘سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا ہے کہ تم بھی شرک کرتے ہو کیونکہ تم یہ کہتے ہو کہ’’جو اللہ چاہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہے ۔’’ اور تم کہتے ہو کہ’’ کعبہ کی قسم!‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ جب قسم کھانا چاہے تو یہ کہیں’’رب کعبہ کی قسم‘‘ اور یہ کہیں کہ’’جو اللہ چاہے اور پھر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ۔‘‘ سنن نسائی ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہہ دیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں ‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’ کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے؟‘‘ یہ کہو کہ’’جو صرف اللہ وحدہ چاہے ۔‘‘ اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کی تفسیر میں منقول ہے: ﴿فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾(البقرۃ۲ /۲۲) ’’پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو۔‘‘