کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 56
کرام کی دعوت سے ناواقف ہیں، ان پر امور خلط ملط ہو گئے، یہ شرک میں مبتلا ہو کر اسے مستحسن سمجھنے لگے اور شرک ہی کو انہوں نے دین اور تقرب الہٰی کا ذریعہ سمجھ لیا اور جو انہیں سمجھائے اس کے یہ منکر ہیں اور پھر اکثر شہروں میں اس عظیم اصول کے بارے میں بصیرت رکھنے والے علماء بھی بہت کم ہیں، اس قدر کم کہ انہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے، اور ان میں سے بھی بعض کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عالم ہیں لیکن وہ بھی قبروں کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم نہیں دیا، یعنی وہ بھی اہل قبور کو پکارتے، ان سے مدد طلب کرتے اور ان کی نذر وغیرہ مانتے ہیں۔ باقی رہے علماءحق، علماءسنت اور علماءتوحید تو وہ ہر جگہ ہی کم ہیں، لہٰذا اس جامعہ کے طلبہ اور دیگر تمام اسلامی جامعات کے طلبہ پر یہ واجب ہے کہ وہ اس اصول کو تھام لیں، اس کو نہایت مضبوط ومستحکم کر لیں تاکہ وہ ہدایت کے داعی اور حق کی بشارت سنانے والے بن جائیں اور لوگوں کو ان کے دین کی وہ حقیقت بتائیں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے بلکہ جس کے ساتھ اس نے اپنے تمام انبیاءکرام کو مبعوث فرمایا۔ اس وقت میں آپ کے سامنے جو گفتگو کروں گا اس کا تعلق توحید کی اقسام اور شرک کی اقسام سے ہے۔توحید، وحد يوحد توحيدا کا مصدر ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو واحد مانا جائے، یعنی یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت، اسماءوصفات اور الوہیت وعبادات میں وحدہ لاشریک ہے، لوگ اسے تسلیم نہ بھی کریں تو وہ پھر بھی واحد ہے۔صرف ایک اللہ کی عبادت کو توحید کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا کہ اس عقیدہ کے ساتھ بندہ اپنے رب کو واحد سمجھتا ہے اور اس عقیدہ کی روشنی میں وہ اپنے رب کی اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہے، صرف اسی کو پکارتا اور یہ ایمان رکھتا ہے کہ صرف وہی اس کائنات کے تمام امور کا مدبر ہے، وہ ساری مخلوقات کا خالق ہے، وہ صاحب اسماءحسنیٰ وصفات کاملہ ہے۔صرف اور صرف وہی مستحق عبادت ہے، اس کے سوا کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ اگر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ توحید کی تین قسمیں ہیں:(۱)توحید ربوبیت(۲)توحید الوہیت اور(۳)توحید اسماءوصفات، توحید ربوبیت کا تو مشرک بھی اقرار کرتے تھے اور اس کا انکار نہیں کرتے تھے لیکن اس اقرار کے باوجود وہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہوسکے کیونکہ انہوں نے عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص نہ کیا اور توحید الوہیت کا اقرار نہ کیا ۔یہ اقرار تو کیا کہ ان کا رب وہی خالق ورازق ہے اور اللہ ان کا رب ہے لیکن انہوں نے عبادت کے لائق اسی وحدہ لاشریک کو نہ سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جہاد کیا حتی کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کی عبادت کے قائل ہوگئے۔توحید ربوبیت کے معنی رب تعالیٰ کے افعال، کائنا ت کے لیے اس کی تدبیر اوراس میں اس کے تصرف کے اقرارکے ہیں، اسے توحید ربوبیت کے نام سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ بندہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ خلاق ورزاق، امورکی تدبیر اوران میں تصرف کرنے والا ہے، وہ دیتا بھی ہے اور روک بھی لیتا ہے، وہ تہہ و بالا کرتا ہے، عزت وذلت سے نوازتا، جلاتا اور مارتا اورہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، فی الجملہ مشرکوں کو بھی اس کا اقرارتھا، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ﴾ (الزخرف۸۷ /۴۳) ’’اوراگر آپ ان سےپوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً کہیں گے’’اللہ‘‘نے ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ﴾( الزمر۳۹ /۳۸)