کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 55
انسانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اوراپنے آباؤاجداد کے شرک کو چھوڑدیں۔ روم کے باشاہ ہرقل نے صلح حدیبیہ کے ایام میں ابوسفیان بن حرب سے پوچھا تھا جب کہ ابوسفیان قریش کے ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ فلسطین گئے تھے اورادھر اتفاق سے ہرقل بھی ان دنوں القدس میں آیا ہوا تھا، جب ہرقل کو اس قریشی قافلہ کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ ان سے نبی کے بارے میں سوال کرے، اس قافلہ کے سربراہ ابوسفیان تھے، ہرقل نے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےدعوی نبوت کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے۔ ہرقل نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو اس کے سامنے بٹھایا جائے اوراس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے بٹھادیا جائے اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے کچھ سوال: : ات پوچھنے لگا ہوں اوراگر یہ غلط جواب دیں تو ان کی تکذیب کردینا۔ ہرقل نے اس موقع پر ابوسفیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جو مشہورومعروف ہیں اورصحیح بخاری اوردیگر کتب میں موجود ہیں، ان سوال: : ات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’’یہ نبوت کا دعوی کرنے والاانسان کس بات کی دعوت دیتا ہے ۔‘‘ ابوسفیان کا جواب تھاکہ وہ ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم اللہ وحدہ کی عبادت کریں، اپنے آباؤاجدادکےدین کوترک کردیں، نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، صلہ رحمی کرنے اورعفت وپاک دامنی کی زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ہر قل نے یہ سن کر کہا کہ اگر تم ٹھیک کہتے ہو تو وہ ایک دن میرے ان قدموں کی جگہ کا مالک ہوگا، چنانچہ ایسے ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ملک شام کا مالک بنا دیا، رومیوں کو وہاں سے نکال دیا اور اپنے نبی اور اپنے لشکر کو اس نے فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا۔ مقصود یہ کہ شریعت کا یہ اصول ایک عظیم امر ہے اور لوگوں نے جب اس میں سستی کی تو وہ شرک اکبر میں مبتلا ہو گئے۔۔۔مگر جس پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا۔یہ لوگ اسلام کے مدعی ہیں اور جو ان پر اسلام کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرے، اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس عظیم اصول سے جہالت کی وجہ سے خود شرک میں مبتلا ہیں، انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بہت سے مُردوں کو معبود بنا کر ان کی عبادت شروع کر دی ہے، یہ لوگ ان کی قبروں کا طواف کرتے ہیں، ان سے فریاد کرتے ہیں، ان سے اپنے بیماروں کی شفاکے لیے دعا کرتے ہیں، حاجتوں کو پورا کرنے اور دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے ان سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں بلکہ یہ تو نیک لوگوں کی تعظیم اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ پیش کرنا ہے۔یہ لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو براہ راست نہیں پکار سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اولیاء کے واسطہ کو اختیار کیا جائے جیسے بادشاہوں تک پہنچنے کے لیے وزیروں کا وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اسی طرح رب تک پہنچنے کے لیے اولیاء کا وسیلہ اختیار کرنا ضروری ہے کہ اولیاء درحقیقت اللہ تعالیٰ کے وزیر ہیں۔ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دی اور پھر اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت شروع کر دی۔نسال اللّٰه العافية! یہ سب کچھ اس عظیم اصول کے بارے میں جہالت اور قلت بصیرت کی وجہ سے ہے۔بدوی، شیخ عبدالقادر، حسین اور دیگر اولیاء کے پجاری درحقیقت بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہو چکے ہیں، یہ لوگ توحید کی حقیقت سے ناآشنا ہیں، یہ انبیاء