کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 54
﴿وَاسْأَلْ مَنْ أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّ‌سُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّ‌حْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ﴾ (الزخرف۴۳ /۴۵) ’’اور(اے محمد!( صلی اللہ علیہ وسلم )جو اپنے پیغمبرہم نے آپ سے پہلے بھیجے ہیں، ان کے احوال دریافت کرلو کیا ہم نے رحمٰن کےسوا اور معبود مقرر کیے تھےکہ ان کی عبادت کی جائے ۔‘‘ مزید فرمایا:﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ﴾ (الاسراء۱۷ /۲۳) ’’ اور تمہارے پروردگارنےارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔‘‘ اورسورۂ فاتحہ میں فرمایا:﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحۃ۱ /۵) ’’(اے پروردگار!) ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مخلوق کو اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ مخلوق صرف اسی کی عبادت کرے، اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم بھی یہی دیا ہے اور اسی مقصد کی خاطر رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور اس کی توحید کو لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں۔ اہل علم، جو حضرات انبیاءکرام کے نائب ہیں، ان پر بھی واجب ہے کہ اس امر عظیم کو لوگوں کے سامنے بیان کریں، اہل علم کا سب سے بڑا مطلوب یہی ہونا چاہئے، ان کی پوری توجہ و عنایت اسی طرف ہونی چاہئے، کیونکہ اگر عقیدہ توحید سلامت رہا تو دیگراموربھی اس کے تابع ہوں گے اوراگر توحید میں خلل آگیا تودیگراعمال واقوال کچھ نفع نہ پہنچاسکیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَلَوْ أَشْرَ‌كُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الانعام۶ /۸۸) ’’اور اگر (بالفرض والمحال)یہ لوگ شرک کرتے تو جوعمل وہ کرتے تھے، وه سب ضائع ہوجاتے ۔‘‘ اورفرمایا: ﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورً‌ا﴾ (الفرقان۲۵ /۲۳) ’’ اور انہوں نے جو عمل کیے ہوں گے ہم نےان کی طرف متوجہ ہوکر ان کو اڑتی خاک (پراگنده ذروں کی طرح) کردیں گے ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَ‌كْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ﴾ (الزمر۳۹ /۶۵) ’’(اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی طرف اور آپ سے پہلے کے تمام ا نبیاء علیہم السلام کی طرف یہی وحی بھیجی گئی ہےکہ اگر تم نے بھی شرک کیا توتمہارے عمل برباد ہوجائیں گےاور تم زیاں کاروں میں سے ہوجاؤ گے ۔‘‘ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد مکہ مکرمہ میں دس برس گزارے اوراس عرصہ میں نماز کی فرضیت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی، اس سارے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو اختیار کرو، شرک اوربت پرستی کو چھوڑ دو، تمام جنوں اور