کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 41
(پاکیزگی بیان)کرتے ہیں کہ جس سے تعطیل (صفات الٰہی کا انکار) بھی لازم نہ آئے، تناقض پیدا نہ ہو اور تمام دلائل کے مطابق عمل بھی ہوجائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی بھی اپنے ان بندوں کے بارے میں یہی سنت ہے جو اس حق کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا ۔وہ حق کو تھامنے کی مقدوربھر کوشش کرتے اور اسے اخلاص کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ڈھونڈتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں حق اختیار کرنے کی توفیق عطافرماتا اوران کے دلائل کو غلبہ عطافرمادیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ﴿ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ﴾(الانبیاء۲۱ /۱۸) ’’(نہیں)بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تووہ اس کا سرتوڑ دیتا ہے اورجھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرً‌ا﴾(الفرقان۲۵ /۳۳) ’’اوریہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی )بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اورخوب واضح جواب بھیج دیتے ہیں ۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر میں حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ: ﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللّٰه الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ﴾(الاعراف۷ /۵۴) ’’یقینا تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا ۔‘‘ کی تفسیر میں بہت اچھا انداز اختیار کیا ہے، عظیم فائدہ کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں نقل کردیا جائے، حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ "اس مقام کی تفسیر میں لوگوں کے بہت سے اقوال ہیں لیکن ہم ان سب کو یہاں بیان نہیں کرسکتے، بس ہم اس مقام کی تفسیر میں وہ مذہب اختیار کریں گے جو سلف صالحین مالک، اوازعی، ثوری، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحاق بن راھویہ اور قدیم وجدید دیگر ائمہ مسلمین کا ہے اوروہ یہ کہ اس آیت کو اسی طرح لیا جائے جس طرح یہ وارد ہے، نہ استواء کی کیفیت بیان کی جائے، نہ تشبیہ دی جائے اورنہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو معطل قراردیا جائے۔"مشب ہیں "(تشبیہ دینے والے)کے ذہنوں میں جو بات بظاہر آتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اس سے پاک ہے کیونکہ مخلوق میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے مشابہت نہیں رکھتی (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ )بلکہ بات درحقیقت اس طرح ہے جس طرح ائمہ کرام مثلا نعیم بن حماد خزاعی۔۔۔۔۔استادحضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔نے فرمائی ہےکہ"جس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دی وہ کافر ہے۔جس نے اس صفت کا انکار کیا جو للہ نے اپنی ذات گرامی کے بارے میں بیان فرمائی ہے، وہ بھی کافر ہے نیز اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفت بیان فرمائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی جو صفت بیان فرمائی ہے، اس میں تشبیہ نہیں ہے ۔"جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفات کو ثابت کرے جن کا ذکرآیات صریحہ اوراحادیث صحیحہ میں موجود ہے اورپھر اس طرح بیان کرے جس طرح اللہ تعالیٰ کی جناب کے شایان شان ہے اوراللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے تمام عیوب ونقائص کی نفی کردے تو وہ شخص راہ ہدایت پر گامزن ہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی بات یہاں ختم ہوگئی۔