کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 38
کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔‘‘
اس عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندوں نے عبادت کی جن جن صورتوں کو بھی اختیار کیا ہے، مثلا دعا، خوف، امید، نماز، روزہ، ذبح، نذر وغیرہ، ان تمام اقسام کو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات گرامی کے لیے اس طرح مخصوص کر دیا جائے کہ بندہ اس معبود حقیقی کے سامنے عاجزی وانکساری کااظہارکرےتواس کاشوق بھی دامن گیر ہو، اس کاخوف دل میں ہو تو اس سے کمال درجہ کی محبت بھی ہو اور اس کی عظمت کے سامنے انسان عجز وانکساری کی بھی انتہا کر دے۔قرآن کریم کا اکثرو بیشتر حصہ، دین کے اسی عظیم الشان اصول کی تشریح وتوضیح کے بارے میں نازل ہوا ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاعْبُدِ اللّٰه مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴿٢﴾ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾(الزمر۳۹ /۲۔۳)
’’اللہ کی عبادت کرو(یعنی)اس کی عبادت کو(شرک)سے خالص کر کے، دیکھو!خالص عبادت اللہ ہی کے لیے(زیبا)ہے ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾(الاسراء۱۷ /۲۳)
’’اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔‘‘
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿ فَادْعُوا اللّٰه مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴾(الغافر۴۰ /۱۴)
’’اللہ کی عبادت کو خالص کر کے صرف اسی کو پکارو اگرچہ کافر برا ہی مانیں ۔‘‘
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر ایمان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان تمام فرائض وواجبات پر بھی ایمان لایا جائےجنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے، مثلا اسلام کے ظاہری ارکان خمسہ(۱)اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں(۲)نماز قائم کرنا (۳)زکوۃ اداکرنا(۴)رمضان المبارک کے روزے رکھنا (۵)اگر زادہ رہ ہوتو بیت اللہ شریف کا حج کرنا۔دیگر فرائض جن کا مطہرہ نے حکم دیا ہے اوران سب میں سے اہم اوراعظم رکن یہ شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسو ل ہیں ۔"لاالہ الا اللہ "کی شہادت کا یہ تقاضا ہے کہ عبادت اخلاص کے ساتھ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کی کی جائے اورغیر اللہ کی عبادت کی نفی کردی جائے چنانچہ "لاالہ الا اللہ "کے یہی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے سواجس انسان، فرشتہ، جن یا کسی اورہستی کی عبادت کی جائے، وہ معبود باطل ہے جب کہ معبود حقیقی صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللّٰه هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ﴾(الحج۲۲ /۶۲)
’’یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور(کافر)جس چیز کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ باطل ہے ۔‘‘
یہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس عظیم اصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا اور ان کو یہی حکم دیا ہے، اسی اصول کو لوگوں تک پہنچانے اورانہیں سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءکرام کو مبعوث کیا اوراپنی کتابوں