کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 231
درمیان سکوت نہ کرے تومقتدی کو چاہئے کہ فاتحہ کو اپنے جی میں پڑھ لے خواہ امام قراءت ہی کیوں نہ کررہا ہواورپھر سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش ہوجائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ذیل ارشادکے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کو ہر رکعت میں پڑھا جائے:
((لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا يَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)) (متفق عليه)
’’اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جوسورهٔ فاتحہ نہ پڑھے ۔‘‘
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا :’’جی ہاں‘‘ فرمایا:
(( لا تَفعَلُوا إلا بفاتحةِ الكتاب، فإنَّه لا صلاةَ لمن لم يَقرَأبها)) (مسند احمد ’سنن ابي داود’وصحيح ابن حبان باسنادحسن)
’’سوره فاتحہ کے سوا اورکچھ نہ پڑھوکیونکہ جو شخص سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘ (احمد ’سنن ابي داود’ ابن حبان، اس کی سند حسن ہے)
یہ دونوں حدیثیں حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ اورارشادنبوی کے عموم کی تخصیص کردیتی ہیں۔
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ (الاعراف۷ /۲۰۴)
’’اور جب قرآن پڑھا جائے توتوجہ سے سناکرو اورخاموش رہا کروتاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘
’’امام اس لیے بنایا جاتا ہےکہ اس کی اقتداء کی جائے، لہذا اس سے اختلاف نہ کرو، جب وہ اللہ اکبر کہے توتم بھی اللہ اکبر کہو۔اورجب وہ قراءت کرے توتم خاموش رہو ۔‘‘ (صحیح مسلم)
مقتدی کے بلند آواز سے قراءت کرنے کے بارے میں حکم
سوال : امام کے پیچھے کھڑا ہوا جومقتدی اونچی آواز سے قراءت کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب : سنت یہ ہے کہ مقتدی اپنی قراءت اوردیگر تمام اذکار اور دعاؤں کو آہستہ پڑھے کیونکہ مقتدی کی بلند آواز سے پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے اورپھر اس کے بلند آواز سے پڑھنے سے دیگر نمازیوں کی نماز میں بھی خلل پیدا ہوگا۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ بائیں طرف کھڑے ہونے والے کو دوگنا ثواب ملتا ہے
سوال : عشاء کی جماعت کھڑی ہوئی، دائیں طرف کی صف مکمل تھی جبکہ بائیں طرف بہت کم لوگ تھے، توہم نے کہا کہ بائیں طرف سے صف کو برابرکرو، توایک نمازی نے کہا دائیں طرف کھڑا ہونا افضل ہے ۔ایک دوسرے آدمی نے اس کے جواب میں کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص صفوں کی بائیں طرف کو آباد کرے اسے دوگناہ اجروثواب ملتا ہے۔براہ کرم فتوی دیجئے کہ اس مسئلہ میں صحیح بات کیا ہے؟
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر صف کی دائیں طرف افضل ہے۔لیکن لوگوں کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ صف کو دائیں بائیں طرف سے برابر کرلوکیونکہ حصول فضیلت کی نیت سے اگردائیں طرف زیادہ آدمی کھڑے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
بعض نمازیوں نے جویہ حدیث بیان کی کہ