کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 227
[1]
[1] = للنشروالتوزیع الریاض سعودی عرب)
(۲) عن عبادة بن الصامت رضي الله تعالي عنه قال :قال رسول الله : لاصلوة لمن لم يقرابام القرآن(متفق عليه) اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ا س کی نماز نہیں ہے، توکیا جو شخص ایک رکعت میں توسورہ فاتحہ نہ پڑھے اورباقی نماز میں پڑھ لے اس کی نماز ہوجائے گی ؟اس کا جواب ہے ’’نہیں ہوگی ‘‘ کیونکہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے جب رکن کسی بھی جگہ ساقط ہوگا نماز ناقص ہوگی اوریہی بات صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے جو حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبیان فرماتے ہیں:’’من صلي صلوة لم يقرافيهابام القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس شخص نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے، وہ پوری ہی نہیں، بعینہ اسی طرح جس طرح ایک حاملہ اونٹنی وقت سے کچھ ماہ قبل اپنا ناقص الخلقت بچہ گرادے اورہر شخص جانتا ہے کہ اس طرح کا بچہ کسی بھی کام کا نہیں ہوتا توجو شخص ایک رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا اس کی کم ازکم وہ ایک رکعت توناقص ہی ہوگی اوریہ بات کس طرح ممکن ہے کہ کسی شخص کی ایک رکعت تو ناقص اورغیر مکمل ہوجبکہ باقی نماز مکمل ہو!
پھر یہ بھی بات ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا :میں نے اپنے اوراپنے بندے کے درمیان نماز آدھی آدھی تقسیم کردی ہے۔الخ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تقسیم بیان فرمائی ہے تو وہ فاتحۃ الکتاب کی تقسیم ہے۔اب اگر کوئی شخص ایک رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی کم از کم وہ ایک ر کعت تو اس تقسیم انعام سے محروم اورخالی ہے۔پھروہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہئے جس کو امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’’سنن‘‘میں بیان فرمایا ہے، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ‘‘لاتجزي صلاة لايقرفيهابفاتحة الكتاب’’اس حدیث کے الفاظ اپنے اس مفہوم میں قطعی طور پر واضح ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا تواس کی نماز صحیح ہوگی اورنہ اس کی نماز اس کو کفایت کرے گی کیونکہ’’لاتجزي‘‘ کا معنی ہی یہ ہے کہ ’’لا تکفی ولا تصح‘‘اس لیے جس رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی کم از کم وہ رکعت تو صحیح نہ رہی۔اب اس رکعت کو صحیح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکعت سورہ فاتحہ سمیت پھر پڑھی جائے۔
(۴)حدیث’’لا صلوۃ‘‘میں ’’لا ‘‘نفی جنس کا بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ رکعت ہی سرےسے ’’جنس نماز‘‘ سے نہیں ہے ۔اب اگر کوئی شخص نماز ظہر، عصر یا عشاء کی پہلی رکعت کے رکوع میں شامل ہوتا ہے تواس کے اس رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے سے یہ پہلی رکعت تو ’’جنس نماز ‘‘میں شمار ہی نہیں ہوگی۔اسی طرح نماز مغرب اورنماز صبح کا حال ہوگا۔
(۵)تندرست آدمی کے لیے قیام شرط ہے، یعنی اگر کوئی آدمی طاقت رکھنے کے باوجود فرض نماز کے قیام کا تارک ہے تو اس کی نماز بھی ازروئے شریعت درست نہیں ہے کیونکہ جس طرح رکوع یا سجدے کے تارک کی نماز درست نہیں ہوسکتی اسی طرح قیام نہ کرنے والے شخص کی نماز بھی درست نہیں ہوسکتی ۔مدرک رکوع کی رکعت کو جائز قراردینے کے لیے یہ کہنا کہ ’’ایسے نمازی کے حق میں فاتحہ ساقط ہوجائے گی کیونکہ اس کا محل باقی نہ رہا اوروہ قیام ہے ۔‘‘(جس طرح کہ فضیلۃ الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے موقف اختیار فرمایا ہے) اس سے اولی واحوط یہ ہے کہ یہ بات کہی جائے چونکہ اس شخص