کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 168
بھی بیان فرمایا ہے کہ’’عالم کی جو بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی اس پر اس کی تعریف کی جائے گی اورجو کتاب وسنت کے مخالف ہوگی اس کی تردید کی جائے گی۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کاقول مبنی برحق ہے، اہل سنت والجماعت کابھی یہی موقف ہے اشاعرہ اوردیگر لوگوں نے اصول دین اوردیگر موضوعات پر حق کی حمایت میں جو کہا یا لکھا وہ قابل ستائش ہے اوران سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں، ان کی تردید کی جائے گی تاکہ حق ثابت ہوجائے اورباطل کی تردید ہوجائے تاکہ کم علم لوگوں کے لیے کوئی بات مشتبہ نہ رہے ۔‘‘واللہ المستعان۔ (۱۹)ضعیف حدیث سے استدلال جائز نہیں ۔۔۔کلمہ گومسلمان سے زبان روکنے کے یہ معنی نہیں کہ اس کی غلطیوں کو بھی واضح نہ کیا جائے۔ صابونی نے اپنے چھٹے مقالہ میں ذکر کیا ہے کہ’’صحیح حدیث میں ہے کہ تین چیزیں اصول ایمان میں سے ہیں (۱)اس سے رک جانا جس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔(۲)گناہ کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر قرارنہ دینا۔(۳)تقدیر کے ساتھ ایمان لانا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لیکن حدیث کی معتبر کتابوں کی طرف جب ہم نے مراجعت کی تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث بہت ضعیف ہے، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے’’جامع ‘‘میں اس کے ضعف کی نشاندہی کی ہے ۔امام ابوداؤد نے اسے بطریق یزید بن ابی نشبہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن یہ راوی یزید مجہول ہے جیسا کہ ’’تہذیب‘‘اور’’تقریب‘‘میں ہے، مناوی نے ’’ فیض القدیر‘‘ میں لکھا ہے کہ یزید بن ابی نشبہ (نون کے ضمہ کے ساتھ)کی روایت امام ابوداود کے سوا مؤلفین کتب ستہ میں سے اورکسی نے بیان نہیں کی اوریہ راوی مجہول ہے، جیسا کہ مزی اور دیگر ائمہ نے بیان کیا ہے۔ اس سےمعلوم ہو ا کہ بردارصابونی نے اس حدیث کو جو صیغۂ جزم کے ساتھ صحیح لکھا ہے، تویہ درست نہیں ہے، اس حدیث کو صیغہ تمریض روی (روایت کیا گیا ہے)کے ساتھ بیان کرنا چاہئے جیسا کہ اہل علم نے ضعیف احادیث بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا ہے اورپھربردارصابونی نے وہ الفاظ بھی صحیح طور پر نہیں لکھے جو اس حدیث میں آئے ہیں ۔لہذا ہم تمام فائدہ کے لیے ابوداؤدسے اس کے الفاظ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔امام ابوداؤد نے اسے سعید بن منصور، ابومعاویہ، جعفربن برقان ازیزید بن ابی نشبہ کی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تین چیزیں اصل ایمان ہیں (۱)اس سے رک جانا جس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیااسے کسی گناہ کی وجہ سے کافر قرارنہ دواورنہ کسی عمل کی وجہ سے اسلام سے خارج قراردو(۲)جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہےاس وقت سے لے کر اس وقت تک جہاد باقی رہے گا جب میری امت کا آخری شخص دجال سے لڑےگا، اسےکسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل ختم نہ کرسکے گااور(۳)تقدیر پر ایمان لانا۔ اس حدیث کے ہم معنی کچھ دیگر صحیح احادیث بھی ہیں لہذا اہل سنت والجماعت کا قول ان کے مطابق ہے، چنانچہ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اورپھراس گواہی کے معنی کی پابندی کرے اورکوئی ایسا کام نہ کرے جو اسلام کے منافی ہو تواس سے رک جانا واجب ہے اوراس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے جیسا کہ بخاری ومسلم کی اس حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں