کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 167
’’جواس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب۔‘‘ سلیم بن عامر بیان کرتے ہیں کہ نورتقسیم ہونے اورمنافق ومومن میں تمیز ہونے تک منافق مبتلائے فریب ہی رہے گا، پھر انہوں نے اپنے والد گرامی، یحیی بن عثمان، ابن حیوۃ، ارطاۃبن منذر، یوسف بن حجاج کی سند کے ساتھ ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے راویت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس قدر شدید ظلمت وتاریکی طاری کردے گا کہ کوئی مومن یا کافر اپنے ہاتھ تک کو بھی نہ دیکھ سکے گا، پھر اللہ تعالیٰ مومنوں پر ان کے اعمال کے بقدر نور پھیلا دے گا تو منافقین، مومنوں کے پیچھے لگ جا ئیں گے اورکہیں گے: ﴿انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ﴾ (الحدید۵۷ /۱۳) ’’ہماری طرف نظر(شفقت)کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں ۔‘‘ عوفی، اورضحاک وغیرہ ھمانے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ لوگ جب ظلمت اور تاریکی میں مبتلا ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نور پھیلا دے گا، مومن جب اس نور کو دیکھیں گے تواس کی طر ف متوجہ ہوں گے اوریہ نور گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کے لیے جنت کی رہنمائی کرے گا، منافق جب دیکھیں گے کہ مومن چل پڑے ہیں تو وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ منافقوں پر اندھیرا طاری کردے گاتو اس وقت وہ مومنوں سے کہیں گے کہ ﴿انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ﴾کہ ’’ہم دنیا میں تمہارے ساتھ تھے تومومن کہیں گے کہ جاؤ واپس اس مقام پر تاریکی میں لوٹ جاو، جہاں سے تم آئے ہو اوروہاں نور تلاش کرو ۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر) یہ جو ہم نے ابن جریر اورابن کثیررحمۃ اللہ علیہما کے حوالہ سے ذکر کیا ہے اس سے قاری کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا، کافروں کے ساتھ مکرومذاق، منافقوں کے ساتھ دھوکاواستہزاءاوراپنے دشمنوں کے ساتھ فریب مبنی برحقیقت ہے اوریہ کسی تاویل کا محتاج نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے یہ حق وعدل پر مبنی ہے اوراس کی طرف سے کافروں اورمنافقوں کے عمل کی اس طرح سزا ہے جس طرح اس کی ذات گرامی کے لائق ہے اوریہ اس طرح نہیں ہے جس طرح اس کے دشمنوں سے اس کا ظہورہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اورافعال مخلوق میں سے کسی کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتے بلکہ یہ اس طرح ہیں جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہیں، اوراللہ تعالیٰ کی یہ تمام صفات اورافعال حق اورعدل ہیں اوراللہ تعالیٰ کے سوا ان کی کیفیت کو بھی اورکوئی نہیں جانتا، بندگان الٰہی صرف اس قدرجانتے ہیں جو اس نے اپنی کتا ب کریم میں بیان فرمادیا جسے اس نے اپنے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرمادیا ہے۔ (۱۸)صابونی نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا حوالہ غلط دیا ہے۔ صابونی نے اپنے چھٹے مقالہ اوربعض سابقہ مقالوں میں بھی لکھا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’علماءفروع دین کے مددگارہیں جب کہ اشاعرہ اصول دین کے مددگارہیں ۔‘‘ صابونی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس قول کو منسوب کرتے ہوئے فتاوی جلد ۴ کا حوالہ دیا ہے۔ج ۴، ص، ۱۶کی طرف مراجعت کرنے سے معلوم ہواکہ یہ قول فقیہ ابومحمد کا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ برادرصابونی سے یہ قول نقل کرتے ہوئے غلطی ہوگئی ہے اوراگر بالفرض اس قول کو صحیح مان بھی لیا جائے تواس کے یہ معنی تو نہیں کہ اشاعرہ کی غلط بات کی بھی تردید نہ کی جائے کیونکہ شرعی قاعدہ یہ ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے