کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 165
میں)حوادث کے منتظر رہے اور(اسلام میں)شک کیا اور(لاطائل)آرزوؤں نے تم کو دھوکا دیا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور اللہ کے بارے میں دغاباز تم کو دغا دیتا رہا۔تو آج تم سے معاوضہ نہیں لیا جائے گا اور(وہ)کافروں ہی سے(قبول کیا جائے گا)تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے(کہ)وہی تمہارے لائق ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘
اہل سنت کے علماءتفسیر نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں، چنانچہ امام ابن جریرنے ارشاد باری تعالیٰ:
﴿اللّٰه يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ﴾(البقرۃ۲ /۱۵)
’’ان(منافقوں)سے اللہ ہنسی کرتا ہے ۔‘‘
کی تفسیر کے بارے میں علماءکے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں ہمارے نزدیک صحیح قول اور صحیح تفسیر یہ ہے کہ عربی زبان میں استہزاء کے معنی یہ ہیں کہ استہزاء کرنے والا اس کے سامنے جس سے استہزاءکیا جارہاہوایسے قول وفعل کو ظاہر کرے جو ظاہری طور پر اسے خوش کردے لیکن باطنی طورپر اپنی طرف اوراپنے فعل سے وہ اسے درحقیقت غم پہنچارہا ہواسی طرح خداع(دھوکا)سخریہ (مذاق)اورمکر(فریب)کے معنی بھی یہی ہیں کہ جب ان لوگوں نے یہ طرز عمل توان کے ساتھ معاملہ بھی اسی طرح کا کیا گیا یعنی جب منافقوں نے اپنی زبانوں سے بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ اللہ، اس کے رسول اورجو دین وہ (رسول)لائے ہیں اسے تسلیم کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بظاہر مسلمانوں میں شمار کیا اگرچہ باطنی طورپر وہ ان سچے مسلمانوں میں شمار نہ تھے جنہوں نے اپنی زبانوں، ضمیروں، دلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے اورصحیح ارادوں کے ساتھ اقرار کیا اوران کے قابل ستائش اعمال نے ان کے ایمان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کی لیکن منا فقین کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔اللہ تعالیٰ کو اگرچہ ان کے کذب کا علم اوران کے خبیث اعتقاد کی اطلاع تھی اورمعلوم تھا کہ اپنی زبانوں سے جس کے یہ دعویدار ہیں، اس کے بارے میں یہ خود شک میں مبتلا ہیں اگرچہ بظاہر یہ اس کی تصدیق کرتے تھے، حتی کہ جب آخرت میں انہیں انہی لوگوں میں اٹھایا جائے گاجن میں یہ دنیا میں شمار ہوتے تھے تو یہ گمان کرنے لگیں گے کہ جہاں وہ (یعنی اہل ایمان )جائیں گے وہاں یہ بھی جائیں گے، جہاں وہ داخل ہوں گے، وہاں یہ بھی داخل ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے بھی اگرچہ ان کے لیے احکام کو ظاہر فرمایا جنہوں نے انہیں دنیا میں بھی ان کے ساتھ ملائے رکھا اورآخرت میں بھی اس وقت تک انہی کے ساتھ رکھے گا، جب وہ ان میں اور اپنے دوستوں میں فرق کرتے ہوئے ان کو دردناک سزااورخوفناک جہنم سے دوچارکردے گااورانہیں جہنم کے اس سب سے نیچے کے طبقے میں پہنچائے گا جسے اس نے اپنے سب سے بڑے دشمنوں اوربدترین انسانوں کے لیے تیار کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ اس طرح کرنا ان کے افعال کی سزا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ یہ معاملہ مبنی برعدل وانصاف ہے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے وہ اسی بات کے مستحق تھے کہ ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے بھی وہ احکام رکھے جو اس کے دوستوں کے لیے تھے حالانکہ یہ منافق اس کے دشمن تھے، آخرت میں انہیں مومنوں کے ساتھ ہی اٹھائے گا حالانکہ دنیا میں یہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرنے والے تھے تاآنکہ وہ لمحہ آجائے گا جس میں اللہ تعالیٰ اپنے سچے مومن بندوں اورمنافقوں میں فرق کردے گا کہ وہ منافقوں کے ساتھ استہزاء، مذاق، خداع اورمکر کرے گا۔جب کہ ان الفاظ کہ وہ معنی ہوں جو ہم نے ابھی بیان کیے ہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ، ارشادباری تعالیٰ: