کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 164
اورنیک کاموں سےمنع کرتے اور(خرچ کرنے سے)ہاتھ بند کیے رہتے ہیں، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا ۔‘‘ میں نسیان کی تفسیر میں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی ضلالت میں چھوڑ دیا، یہ تاویل نہیں بلکہ یہ تو لغوی معنی کے اعتبار سے اس مقام کی تفسیر ہے کیونکہ لفظ نسیان کے اس استعما ل کے اعتبار سے معنی مختلف ہیں جیسا کہ علماء تفسیر نے بیان فرمایا ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نَسُوا اللّٰه یعنی ’’وہ اللہ کے ذکر کو بھول گئے ۔‘‘فَنَسِيَهُمْتواللہ تعالیٰ نے ان سے اس طرح معاملہ کیا جیسے وہ ان کو بھو ل گیا ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا﴾ (الجاثیۃ۴۵ /۳۴) ’’اور کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا، اسی طرح آج ہم تمہیں بھلادیں گے ۔‘‘ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو یہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ استہزاء کرنےوالوں کے ساتھ استہزاء کرتا ہے، مذاق کرنے والوں کے ساتھ مذاق کرتا ہے، مکر کرنے والوں کے ساتھ مکر کرتا ہے، فریب کرنے والوں کو فریب دیتا ہے، تو اس کے لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے عمل کے مطابق معاملہ کرتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا مذاق کرنے والوں سے مذاق حق ہے نیز مکر کرنے والوں سے فریب حق ہے تو اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ان الفاظ کا جواستعمال ہوا ہے، تو یہ اس طریقہ سے ہے جو اس کی عظمت وجلالت کے لائق ہو اور مخلوق سے جس کی مشابہت نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے تو ان افعال کو حق کے خلاف عناد، کفراور انکار کی خاطر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے افعال کے مطابق معاملہ کیا لیکن اس طرح نہیں کہ ان کے افعال سے اس کی مشابہت ہو بلکہ اس طرح کہ اس کی کیفیت کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوااور کوئی جانتا ہی نہیں ہے اور پھر اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ان سے فریب، مکر، مذاق اور استہزاء کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس نے ان کو مہلت دے رکھی ہے اور انہیں وہ فورا سزا نہیں دے رہا، اسی طرح اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے دن منافقوں کے لیے کچھ نور کو ظاہر کرے گا لیکن پھر ان سے اس نور کو سلب کرلے گا جیسا کہ اس نے سورہ ٔحدید میں اس کا اس طرح ذکر فرمایا ہے: ﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ قِيلَ ارْ‌جِعُوا وَرَ‌اءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورً‌ا فَضُرِ‌بَ بَيْنَهُم بِسُورٍ‌ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّ‌حْمَةُ وَظَاهِرُ‌هُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَ‌بَّصْتُمْ وَارْ‌تَبْتُمْ وَغَرَّ‌تْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ‌ اللّٰه وَغَرَّ‌كُم بِاللّٰه الْغَرُ‌ورُ‌ ﴿١٤﴾ فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ‌ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌﴾ (الحدید۵۷ /۱۳۔۱۵) ’’اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر(شفقت)کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جائے اور(وہاں)نور تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب، تو منافق لوگ مومنوں سے کہیں گے کہ کیا ہم(دنیا میں)تمہارے ساتھ نہ تھے!وہ کہیں گے کیوں نہیں تھے، لیکن تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور(ہمارے حق