کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 163
کا بیان گزر چکا ہے، لہذا اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ اشاعرہ باب اسماء وصفات میں اہل سنت میں سے نہیں ہیں اگرچہ دیگر ابواب میں یہ اہل سنت میں سے ہیں تاکہ ان کے مذہب کا مطالعہ کرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ بعض صفات کی تاویل میں انہوں نے غلطی کی ہے اوراس مسئلہ میں انہوں نے حضرات صحابہ و تابعین کی مخالفت کی ہے، ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ حق کا اثبات اورباطل کی نفی ہواوراہل سنت واشاعرہ میں سے ہر ایک کو وہ مقام ومرتبہ دیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔
یہ مطلقا جائز نہیں ہے کہ تاویل کو اہل سنت کی طرف منسوب کیا جائے کیونکہ تاویل تو ان کے مذہب کے خلاف ہے، لہذا تاویل کو اشاعرہ اور دیگر تمام اہل سنت کی طرف منسوب کیا جائے گا جنہوں نے نصوص کی نا جائز طور پر تاویل کی ہے ۔
اہل سنت کی تاویل کے سلسلہ میں برادرصابونی نے جو مثالیں پیش کی ہیں، یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتیں کیونکہ اہل سنت کا یہ کلام باب تاویل میں سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تو معنی کی وضاحت اورمعنی کے بارے میں لوگوں کے شکوک وشبہات کے ازالہ سے ہے، چنانچہ ان کی پیش کردہ مثالوں کا مفصل جواب حسب ذیل ہے،
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ :
﴿نَسُوا اللّٰه فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۹ /۶۷)
’’ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا ۔‘‘
میں نسیان سے مراد وہ نسیان نہیں ہے جو حسب ذیل ارشادباری میں مراد ہے:
﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ (مریم۱۹ /۶۴)
’’اورتمہارا پروردگاربھولنے والانہیں ۔‘‘
اورجو حسب ذیل میں مراد ہے:
﴿فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى﴾ (طہ۲۰ /۵۲)
’’جو کتاب میں(لکھا ہوا ہے)میراپروردگار چوکتا ہےنہ بھولتاہے ۔‘‘
بلکہ یہ نسیان جس کی نفی کی جارہی ہے، اس کے اورمعنی ہیں اوروہ نسیان جس کا ارشادباری تعالیٰ:
﴿نَسُوا اللّٰه فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۹ /۶۷) ’’انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا ۔‘‘
میں اثبات ہے، اس کے اورمعنی ہیں اوروہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی ضلالت میں چھوڑ رکھا ہےاوران سے اعراض فرمارکھا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے اوامرکو ترک کررکھا ہے اوراپنے نفاق اورتکذیب کی وجہ سے اس کے دین سے اعراض کررکھا ہے اورجس نسیان کی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات گرامی کے حوالہ سے نفی کی ہے، یہ ذہول وغفلت کے معنی میں ہے اوراس سے اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم، اپنے بندوں کے حالات کے بارے میں کمال بصیرت اوران کے تمام امور ومعاملات کے احا طہ کی وجہ سے پاک ہے، وہ زندہ، ہمیشہ رہنے والا کہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، وہ بھولتا ہے نہ غافل ہوتا ہے، ان عیوب ونقائص سے اللہ تعالیٰ بلندو بالا اورارفع واعلیٰ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ارشاد باری تعالیٰ :
﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللّٰه فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۶۷ /۹)
’’منافق مرد اورمنافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس (یعنی ایک ہی طرح کے)ہیں، برے کام کرنے کو کہتے