کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 160
ائمہ نے بیان فرمایااورجیسا کہ ان سے پہلے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اورربیعہ بن ابی عبدالرحمن، شیخ امام مالک نے بیان فرمایا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین!اس طرح صفات کی تاویل کرنا بھی سلف کا مذہب نہیں ہے بلکہ وہ تو ان کو اسی طرح مانتے ہیں جس طرح یہ وارد ہیں اوران کے معانی کے ساتھ اسی طرح ایمان لاتے ہیں کہ جس طرح تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیراللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے شایان شان ہوجیسا کہ اسے پہلے کئی مرتبہ بیان کیا جاچکا ہے۔اس طرح تجسیم کی نفی یا اثبات بھی سلف کا مذہب نہیں ہے کیونکہ اس کا کتاب و سنت میں ذکر ہے نہ سلف امت کے کلام میں جیسا کہ کئی ایک ائمہ نے اسے بیان فرمایا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘التدمریہ’’میں چھٹےقاعدہ کے تحت رقم طراز ہیں کہ ’’جوشخص اللہ تعالیٰ کی نقائص کے ساتھ وصف بیان کرتا ہے تواس کی تردید کے لیے یہ طریقہ ایک فاسد طریقہ ہے، سلف یا ائمہ میں سے کسی نے اس طریقہ کو اختیار نہیں کیا اورنہ ان میں سے کسی نے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم یا جوہر یا تحیز(کسی ایک ہی جگہ میں منحصر ہونا)کا لفظ نفیایااثباتااستعمال کیا ہے کیونکہ یہ مجمل الفاظ ہیں، ان سے حق ثابت ہوتا ہے نہ باطل کی نفی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہود اوردیگر کفار کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے، کلا م کا یہ ایک بدعی انداز ہے سلف اور ائمہ نے اس اسلوب کلام کو اختیار کرنے سے انکارفرمایا ہے ۔‘‘ حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب ’’فضل علم السلف علی علم الخلف ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’صحیح موقف وہ ہے جس پر ائمہ سلف تھے کہ آیات واحادیث صفات کو اسی طرح ماناجائے جس طرح یہ وارد ہیں کہ ان کی تفسیر کی جائے نہ کیفیت بیان کی جائے اورنہ تمثیل، چنانچہ اس مسئلہ میں ائمہ سے خصوصا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ان آیات واحادیث صفات کے معانی میں غوروخوض کرنا اوران کےلیے کسی مثال کو بیان کرنا بھی صحیح نہیں ہے، ‘‘ اگرچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ کے قریب بعض لوگوں نے مقاتل کے طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے ان میں غوروخوض کیا بھی ہے تو وہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے کیونکہ اس سلسلہ میں مقتداءائمہ اسلام مثلا ابن مبارک، مالک، ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق اورابوعبید رحمۃ اللہ علیہم جیسے ائمہ کرام ہیں۔ان ائمہ کے ہاں فلاسفہ تو کجا متکلمین کا سا انداز کلام بھی نہیں ہےاورہر ا س شخص کے کلام کا یہ اسلوب نہیں ہے جو قدح وجرح سے محفوظ رہا ہے۔امام ابوزرعہ رازی کا قول ہے کہ ’’ہر وہ شخص جس کے پاس علم ہو، وہ اپنے علم کی حفاظت نہ کرسکے اوراس کی نشرواشاعت کے لیے وہ علم کلام کا محتاج ہو تو تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے ۔‘‘ کتاب وسنت سے اللہ تعالیٰ کے جس قدر بھی اسماء وصفات ثابت ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی تاویل کرنا واجب ہو بلکہ نصوص سے تو وہ اسماء صفات ثابت ہیں جو اس معنی مراد پر دلالت کناں ہیں جس کا اثبات اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لیے اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے لائق ہے اوراس بات کی قطعا کو ئی ضرورت نہیں ہےکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی کوئی ایسی تاویل کی جائے جو ظاہر کلام کے خلاف ہو، البتہ ان صفات کی کیفیت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے گا جیسا کہ ائمہ سنت کے ا رشادات کے حوالہ سے قبل ازیں بھی اسے بیان کیا جاچکا ہے۔ (۱۶)سلفی اہل علم ائمہ اسلام میں سے کسی ایک کو بھی کافر قرارنہیں دیتے ہاں البتہ خلاف حق تاویل کرنے