کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 158
پر ہے، اپنی مخلوق سے جدا ہے، مخلوق سے بلند ہے لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے، جوشخص نصوص کتاب وسنت پر غورکرےاوربعض کی بعض سے تفسیر کرے تواس کے سامنے معنی واضح ہوجائیں گے اوراسے کسی تاویل کی ضرورت نہ ہوگی۔ ابوجعفربن جریر طبری نےسورۂ ق کی آیات کی تفسیر میں دوسراقول اورسورہ ٔ واقعہ کی آیت میں پہلا قول پسند کیا ہے، اہل سنت نے نصوص صفات کی تاویل کرنے والے کا انکار کیا اوراسے بدعتی قراردیا ہے کیونکہ ان کی تاویل کرنے سے کئی قسم کی باطل باتیں لازم آتی ہیں ۔کلمات الٰہی کی تحریف لازم آتی ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کمال کی نفی لازم آتی ہےاوراس کے بارے میں یہ سوء ظن پیدا ہوتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ایسے کلام سے مخاطب کیا ہے جوبظاہر تشبیہ وتمثیل پر مبنی ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد کچھ اورہے، یہی وہ تاویل مذموم ہے جسے اہل کلام نے اختیار کیا مگر اہل سنت نے ان کا انکار کرتے ہوئے اس مسئلہ میں انہیں گمراہ قراردیا کیونکہ انہوں نے ظاہری معنی کے خلاف نصوص کی تاویل کی اوراس حق سے جس پر یہ دلالت کناں تھیں، انہیں پھیردیا اورپھر اس سلسلہ میں ان کے پاس کتاب و سنت سے کوئی دلیل وبرہان بھی نہیں، یہ انہوں نے محض اپنی عقلوں اوران آراءکی بنیاد پر کیا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل وبرہان نازل نہیں فرمائی اورپھر اہلسنت نے ان کے افکاروآراءسے ان کے سامنے یہ بھی ثابت کیا کہ جس چیز سے یہ تاویل کرتے ہوئے راہ فراراختیارکررہے تھے، اسی چیز کو انہوں نے اختیار بھی کیا۔بات یہ ہے کہ بلاشک وشبہ تناقض وتضاد سے صرف وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو نفی واثبات کے سلسلہ میں صرف اورصرف اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر اکتفا کرے اوروہ اہلسنت والجماعت ہیں۔واللہ المستعان۔ (۱۴)مسلمانوں کے اتفاق واتحاد کے وجوب سے یہ لازم نہیں آتا کہ فعل وعقیدہ کا بھی انکار نہ کریں اپنے چوتھے مقالہ میں شیخ صابونی نے یہ دعوت دی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں اتفاق واتحاد ہونا چاہئے، دشمنان اسلام کے خلاف سب کی متفقہ کوششیں ہونی چاہئیں اورپھر یہ ذکر کیا ہے کہ یہ وقت مختلف مذاہب کے پیروکاروں، اشعریوں، اخوانیوں حتی کہ صوفیوں کی مخالفت کا وقت نہیں ہے۔ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ لاریب!مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، حق پرسب اکٹھے ہوجائیں اور دشمنان اسلام کے خلاف نیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے کہ: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰه جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا﴾ (آل عمران۳ /۱۰۳) ’’اورسب مل کراللہ کی رسی کو مضبوط تھام لواورباہمی اختلاف سے بچو ۔‘‘ اورتفرقہ سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّ‌قُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ﴾ (آل عمران۳ /۱۰۵) ’’اوران لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اورواضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے ۔‘‘ لیکن مسلمانوں کے اتحاد، حق پر اتفاق اوراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے وجوب سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صوفیہ اوردیگر لوگوں کے منکر فعل اورعقیدہ کا بھی انکار نہ کریں بلکہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم کا تقاضا یہ