کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 157
تاکہ تم میری نگہداشت و حفاظت میں پرورش پاؤ، اسی طرح حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں کہ’’میں اپنے بندے کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے ۔‘‘تو ان کی تفسیر ایک دوسری روایت کے ان الفاظ سے ہوجاتی ہے کہ ’’وہ میرے لیے سنتا، میرے لیےدیکھتا، میرے لیےپکڑتااور میرے لیےچلتا ہے ۔‘‘جس شخص کو عربی زبان میں ادنی سی بصیرت بھی حاصل ہو وہ یہ گمان نہیں کرسکتا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسان کا کان، آنکھ، ہاتھ اورپاؤں ہے ۔اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک، بلند وبالااورارفع واعلی ہے، لہذا اس سے اللہ تعالیٰ کی مرادیہ بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاءکو، اس کی اطاعت اور اس کے حق کے لیے قیام کے باعث یہ توفیق عطافرمادیتا ہےکہ ان کے افعال وحرکات صحیح ہوتے ہیں، اسی طرح دیگر احادیث کے بھی یہی معنی ہیں۔ باقی رہی یہ حدیث کہ’’حجر اسود اللہ تعالیٰ کا داہاں ہاتھ ہے ۔‘‘تویہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ مرفوع نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موقوف روایت ہے لیکن مرفوع ہو یا موقوف اس کے معنی ظاہر ہیں جیسا کہ خود اس حدیث ہی میں یہ وضاحت ہے کہ جس نے حجر اسود کو بوسہ دیا اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا۔اس سے معلوم ہو اکہ حجر اسود اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ نہیں ہے بلکہ اسے ہاتھ لگانے اوربوسہ دینے کی ترغیب کے پیش نظر تشبیہ یوں دی گئی ہے کہ اسے ہاتھ لگانے اوربوسہ دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کے ہاتھ سے مصافحہ کرکے گویا اسے بوسہ دے رہا ہو۔ اسی طرح صحیح حدیث میں اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے کہ وہ اپنے بندے سے یہ فرمائے گا کہ’’میں بیمار ہوا مگر تونے میری عیادت نہ کی ۔‘‘تو اس حدیث ہی میں اس کے معنی کی اس طرح وضاحت موجود ہے کہ’’ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تومیرے فلاں بیمار بندے کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتااوراگرتواس بھوکے کو کھانا کھلاتا تومجھے بھی اس کےپاس پاتا ۔‘‘تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیمار ہوتا ہے نہ بھوکا، لہذا اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مریض کی بیمار پرسی اوربھوکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ﴾ (ق۵۰ /۱۶) ’’اورہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں ۔‘‘ نیزفرمایا: ﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ﴾ (الواقعۃ۵۶ /۸۵) ’’اورہم اس(مرنے والے)سے تمہار ی نسبت قریب ترہوتے ہیں ۔‘‘ کی ایک جماعت نے یہی تفسیر کی ہے کہ اس سے فرشتوں کا قرب مراد ہے کیونکہ بوقت موت فرشتوں کا بندے کے قریب آنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم، اس کی تقدیر اوراپنے بندوں کی نگہداشت کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ کچھ دیگر لوگوں نےاس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اس سے سبحانہ وتعالیٰ کا قرب مراد ہے جو اس کے علم، اس کی قدرت اوراس کے اپنے بندوں کے احاطہ کی صورت میں ہے یعنی یہاں قرب کے معنی وہی ہیں جو معیت کے ہیں کہ وہ اپنے عابدوسائل بندوں کے قریب ہے حالانکہ وہ ذات گرامی علو وفوقیت کی صفات سے متصف ہے۔اس قرب سے مراد حلول اوراتحاد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اس سے پاک ہے کیونکہ کتاب وسنت کے قطعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ عر ش