کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 156
’’اورہم اس(مرنے والے)سے تمہار ی نسبت قریب ترہوتے ہیں لیکن تم کو نظر نہیں آتے ۔‘‘
کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے فرشتے مرنے والے سے تم سے بھی قریب ہوتے ہیں لیکن تم ان کو دیکھ نہیں سکتے، اسی طرح انہوں نے حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ:
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾ (ق۵۰ /۱۶)
’’اورہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں ۔‘‘
کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ حلول واتحاد سےاللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات پاک ہے اوراس کی نفی پر اجماع ہے۔۔۔۔۔صابونی آگے لکھتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ تاویل کبھی واجب ہوجاتی ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے کہ’’حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے ۔‘‘یا جیسا کہ اس نے کشتی نوح کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
﴿وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴿١٣﴾ تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ﴾ (القمر۵۴ /۱۳۔۱۴)
’’اورہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اورمیخوں سے تیار کی گئی تھی، سوارکرلیا، وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی (یہ سب کچھ)اس شخص کے انتقام کے لیے کیا گیا جس کو کافر مانتے نہ تھے ۔‘‘
اس کے جواب میں ہم صابونی سے یہ کہیں گےکہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ سلف صالح کے مذہب اوراعتقادکو اختیارکرلیا کہ وہی اسلم واحکم ہے لیکن آپ اس پر ثابت قدم نہیں رہے کہ کبھی توآپ مذہب تاویل کو اختیار کرتے ہیں اورکبھی مذہب تفویض کی طرف مائل ہوجاتے ہیں جب کہ ایک مرد مومن کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ حق پر ثابت قدم رہے اوراس کے پایہ استقامت میں لغزش نہ آئے ۔آپ نے جو سلف کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ وہ وَهُوَ مَعَكُمْ کی علم سے تاویل کرتے ہیں تودرحقیقت یہ تاویل نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک آیات معیت کے معنی ہی یہ ہیں جیساکہ امام ابوعمربن عبدالبراورابوعمرطلمنکی نے کہا کہ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے کیونکہ کتاب وسنت کے ان نصوص کایہی تقاضا ہے جو اللہ تعالیٰ کے علو، فوقیت اور حلول واتحاد سے پاک ہونے پر دلالت کناں ہیں، جو شخص بھی ان آیات پر غورکرے گا تو اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ معیت سے مراد ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے حالات اوران کے امورومعاملات کا علم ہے جب کہ معیت خاصہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو اپنی تائیدوحمایت سے نوازتا ہے جب کہ اسے ان کے حالات کا علم بھی ہوتا ہے اورفتح ونصرت سے نوازتا ہے جب کہ وہ ان کے تمام امورو معاملات سے مطلع بھی ہوتا ہے۔عرب جن کی زبانوں میں کتاب وسنت کا نزول ہوا، وہ ان معنوں کو جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں انہیں کوئی شک وشبہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے معنی اس قدر واضح تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کے معنی پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اسی طرح ہمیں دیگر نصو ص کی تاویل کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے معنی بے حدروشن اورظاہر ہیں، مثلا ارشادباری تعالیٰ:﴿تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا، وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي﴾ اور ﴿وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا﴾ کےبارے میں کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ کشتی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی آنکھ کے ساتھ چلتی تھی اورنہ یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی آنکھوں میں تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کشتی اللہ تعالیٰ کی نگہداشت، عنایت، تسخیر اورحفاظت میں چلتی تھی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مولا کی عنایت، حفاظت اور نگہداشت میں تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کے بارے میں جویہ فرمایا کہ وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِيتواس کے معنی بھی یہی ہیں کہ