کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 155
احادیث کو مانا جائے اوریہ اسماء وصفات جن امور پر دلالت کرتی ہیں، ان کو کسی قسم کی تحریف، تعطیل، تاویل، تکییف اورتمثیل وغیرہ کے بغیر اسی طرح مانا جائے جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات گرامی کے شایان شان ہے جیسا کہ پہلے بھی اسے کئی بار بیا ن کیا جاچکا ہے ۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو! صابونی نے یہاں امام بیہقی کے قول کاحوالہ دیا ہے اوراس کے بارےمیں قبل ازیں ہم یہ بیان کرآئے ہیں کہ غلطی کی وجہ سے اہل بدعت کے کچھ الفاظ کو انہوں نے صحیح سمجھتے ہوئے اپنی کتاب میں داخل کردیا اورپھر امام بیہقی کا تعلق بھی علم کلام میں دلچسپی رکھنے والوں میں تھا، اس لیے علم کلام کی بعض خرابیاں ان کے اعتقاد میں شامل ہوگئی تھیں، اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے اورانہیں معاف فرمائے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس فروگزاشت پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی، ج۶، ص:۵۳پر فرمایا ہے۔ (۱۳)اہل سنت والجماعت صفات باری کی تاویل کے قائل نہیں، بعض لوگوں نے ان کے کلام کو جو تاویل کہا ہے تووہ درحقیقت عربی زبان کے مطابق کلام اللہ کی تفسیر ہے۔ پھرصابونی نے اپنے تیسرے مقالہ میں یہ بھی کہاہے، کوشخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم مذہب خلف کو مذہب سلف پر ترجیح دے رہے ہیں، ہم علماء کلام کی اس رائے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ ’’مذہب سلف میں سلامتی کا پہلو زیادہ ہے جب کہ مذہب خلف میں صحت ودرستی کا پہلو غالب ہے ۔‘‘بلکہ ہم ایمان ویقین کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ مذہب سلف ہی سلامتی اورصحت ودرستی کا حامل ہے، لہذا ہم صفات خالق جل علا کی تاویل کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ ہم ان پر اسی طرح ایمان لائیں گے جس طرح یہ وارد ہیں تشبیہ وتجسیم کی نفی کرتے ہوئے، ہم اسی طرح ان کا اقرار کریں گے پھر انہوں نے کسی شاعرکے اس مصرعہ سے بھی استشہادکیا ہے کہ ع ((ان المفوض سالم مما تكلفه الموول)) ’’سپرد کرنے والا اس تکلف سے بچ جاتا ہے جس کا تاویل کرنے والا ارتکاب کرتا ہے ۔‘‘ لیکن آگے چل کرصابونی لکھتے ہیں کہ اگرصفات کی تاویل کرنے والا گمراہ ہے توپھر ہمیں ان تمام سلف صالح کو گمراہ قراردے دینا چاہئے جنہوں نے حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ : ﴿مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ﴾ (المجادلۃ۵۸ /۷) ’’(کسی جگہ)تین(آدمیوں)کا کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اورنہ کہیں پانچ کا مگروہ ان میں چھٹا ہوتا ہے ۔‘‘ کی تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے علم کے ساتھ ہوتا ہےاورارشادباری تعالیٰ : ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید۵۷ /۴) ’’تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے ۔‘‘ کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معیت سے مراد معیت علم ہے تاکہ تعددذات لازم نہ آئے، اسی طرح ہم حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کو بھی گمراہ قراردیں گے کہ انہوں نے ارشادباری تعالیٰ: ﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ﴾ (الواقعۃ۵۶ /۸۵)