کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 154
ہےجس طرح ہم میں سے کوئی سیڑھی پر سے ا ترتا ہے ‘‘ تواہل سنت اس سے بری ہیں کیونکہ یہ اہل سنت کا نہیں بلکہ ان مشب ہیں کا کلام ہے، جن کو سلف صالح نے کافر قراردیا ہےاوران کی اس بات کا انکار کیا ہےکیونکہ یہ حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ سے متصادم ہے: ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴾(الشوری۴۲ /۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے ۔‘‘ اسی طرح اس کے ہم معنی اوربھی بہت سی آیات ہیں، لہذا کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اہل حق یعنی اہل سنت اورمشبہ اہل باطل کے کلام کو آپس میں خلط ملط کردے اوران میں کوئی تمیز نہ کرے بلکہ واجب یہ ہے کہ دونوں کے کلام میں فرق کرتے ہوئے تمیز کی جائے۔ (۱۱)ابوحنیفہ، ابن ماجشون، مالک اوراحمد بن حنبل نے سب سے پہلے اصول دین پر لکھا اورگمراہوں کی تردید کی ۔ صابونی نے اپنے تیسرے مقالہ میں لکھا ہے کہ ’’جس نے سب سے پہلے اصول دین پر لکھا اوراہل زیغ وضلالت کے شبہات کی تردید کی وہ ابوالحسن اشعری اورابومنصورماتریدی ہیں ۔‘‘ یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ ان دونوں سے پہلے اس موضوع پر لکھنے والوں میں امام ابوحنیفہ، امام عبدالعزیزبن عبداللہ بن ابی سلمہ، ماجشون، امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ امام احمد بن حنبل، امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ، امام عثمان بن سعید دارمی۔۔۔جنہوں نے مریسی کی تردید میں لکھا ۔۔۔امام عبدالعزیز کنانی صاحب الحیدۃ اوردیگر بے شمار ائمہ کرام ہیں، رحمہم اللہ تعالیٰ۔ (۱۲)سلف کا ایک ہی مذہب ہے اوروہی مذہب اہل سنت والجماعت کا ہے۔تفویض سلف کا مذہب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت فرمائے صابونی نے اپنے تیسرے مقالہ میں دوبارہ پھر یہ لکھا ہے کہ’’سلف کے دو مذہب ہیں، ایک مذہب اہل تفویض کا ہے اوردوسرااہل تاویل کا۔۔۔۔آگے مزید لکھتے ہیں کہ بعض مذہب سلف کو فضیلت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں سلامتی کا پہلو زیادہ ہے جب کہ بعض دوسرے لوگ مذہب خلف کو افضل قراردیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس میں صحت ودرستی کا پہلو غالب ہے ۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ صابونی صاحب کی یہ تقسیم بالکل باطل ہے کیونکہ سلف کا صرف ایک ہی مذہب ہے، یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا ہے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین کا مذہب ہے اوریہی مذہب سلامتی والا بھی ہے، زیادہ علم اورزیادہ صحت ودرستی کا حامل بھی اوردوسرا مذہب جو خلف کا مذہب ہے وہ مذموم ہے کیونکہ یہ اہل تاویل وتحریف وتکلف کامذہب ہے۔لیکن خلف کے مذہب کی مذمت اوراس سے بچنے کی تلقین کے یہ معنی نہیں کہ خلف کافر ہیں کیونکہ تکفیر کے لیے ایک دوسرا حکم ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ اس شخص کا قول کیا ہے، اس میں باطل کا عنصر کتنا ہے اوراس میں حق کی مخالفت کا پہلو کس قدرہے ؟لہذا یہ کہنا جائز نہیں کہ مذہب خلف کی مذمت اوراشاعرہ کی چند صفات کے سوادیگر تمام صفات کی تاویل وتحریف کرنے کی وجہ سے ان کے نظریات کے انکار سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم انہیں کافر قراردے رہے ہیں بلکہ اس سے ہمارا مقصود صرف یہ بیان کرنا ہے کہ انہوں نے اہل سنت کی مخالفت کی ہے اورصفات باری تعالیٰ کی تاویل کی جو روش اختیار کی ہے، یہ باطل ہے اورصحیح مذہب سلف صالح یعنی اہل سنت والجماعت ہی کا ہے کہ صفات سے متعلق آیات و