کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 153
نصوص میں چونکہ اثبات ہے نہ نفی، لہذا واجب ہے کہ ان کے بارے میں بحث نہ کی جائے اورنفی واثبات کے اعتبار سے ان کے بارے میں تعرض نہ کیا جائے، اس سلسلہ میں یہی قول کافی ہے کہ اہل سنت اللہ تعالیٰ کے صفات واسماء کے اثبات کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ان میں اپنی مخلو ق سے مشابہت نہیں رکھتا کہ اس ذات گرامی کاکوئی شریک نہیں اوراس کا کوئی ہم سر نہیں۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی صرف وہی صفت بیان کی جائے گی جو اس نے خود بیان فرمائی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، اس سلسلہ میں قرآن وحدیث سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘بہت سے دیگر ائمۂ سنت نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے، ہاں البتہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’ کتاب الاعتقاد ‘‘ میں اس طرح کی جو باتیں آگئی ہیں توان کا تعلق متکلمین کے کلام اورتکلف سے ہے، جن کو انہوں نے اچھا سمجھ کر ان کے صحیح ہونے کا عقیدہ اختیار کرلیا حالانکہ حق بات یہ ہے کہ یہ اہل سنت کا کلام نہیں بلکہ اہل بدعت کا کلام ہے۔
(۱۰)اہل سنت والجماعت اثبات ونفی میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے پابند ہیں
صابونی نے اپنے دوسرے مقالہ میں لکھا ہے کہ’’آج کل کے بعض جاہل مدعیان علم اللہ تعالیٰ کی عجیب وغریب صور ت پیش کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا وہ اعضاء وحواس سے مرکب ایک جسم ہے جس کاایک چہر ہ، دوہاتھ، دوآنکھیں، پنڈلی اور انگلیاں ہیں، وہ چلتا، نازل ہوتا اوردوڑتا ہے، ان صفات کو بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح بیٹھتا ہے جس طرح کوئی چارپائی پر بیٹھتا ہےاوروہ اسی طرح اترتا ہے جس طرح ہم میں کوئی سیڑھی پر سے ا ترتا ہے۔۔۔یہ شخص بزعم خود یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو سلف صالح کا مذہب سمجھارہا اوران کے سامنے استواء ونزول کے معنی کی حقیقت کو ثابت کررہا ہے حالانکہ یہ ایک حسی جلوس ہے اوراس طرح نہیں ہےجس طرح تاویل کرنے والے اس کی تاویل کرتے ہیں، اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ، یہ تو عین ضلالت ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو تشبیہ بھی دی ہے اوراس کا جسم بھی ثابت کیا۔اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی چھوٹے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لیے بھاگ کرکسی بڑے گڑھے میں جاگرے اورپھر کسی بہت ہی دورجگہ جاگرے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی صابونی کو ہدایت بخشے، اس مذکورہ کلام میں اس نے حق اورباطل کو ا س طرح جمع کردیا ہےکہ اسے ہر صاحب سنت جانتا ہے، چنانچہ مومن قارئین کرام کے لیے اس کی کچھ حسب ذیل تفصیل پیش خدمت ہے۔
جہاں تک اللہ ر ب ذوالجلال کی ذات گرامی کے چہرہ، دونوں ہاتھوں، دونوں آنکھوں، پنڈلی اورانگلیوں کا تعلق ہے، تویہ کتاب وسنت صحیحہ کے نصوص سے ثابت ہیں، لہذا مانتے ہیں لیکن اس طریقے سے جو اس کی ذات گرامی کے شایان شان ہے۔نزول اورتیز چلنے کا ذکر بھی صحیح احادیث میں موجود ہے، یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادافرمائے اوران اوصاف کا آپ نے اللہ تعالیٰ کے لیے اثبات فرمایا لیکن اس طریقے کے مطابق جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات گرامی کے شایان شان ہےاوران کی کیفیت کو بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوااورکوئی نہیں جانتا، لہذا صابونی کا ان صفات کا انکار کرنا گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا ہے کیونکہ اس میں سے بعض صفات کا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ذکر فرمایا ہے اوربعض دیگر کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتایا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش نفس سے بات نہیں کرتے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوبھی بتاتے ہیں وہ وحی الٰہی کی روشنی میں بتاتے تھے، باقی رہا صابونی کا یہ کہنا کہ ’’ان صفات کو بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح بیٹھتا ہے جس طرح کوئی چارپائی پر بیٹھتا ہے اور اسی طرح اترتا