کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 149
ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ’’ ان پراسی طرح ایمان لاو ٔجس طرح یہ آئی ہیں ۔‘‘ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ‘‘ان کواسی طرح مانو جس طرح بلاکیفیت یہ آئی ہیں۔‘‘ ان ائمہ نے درحقیقت یہ فرماکر کہ جس طرح یہ آئی ہیں، معطلہ کا رد کیا ہےاوربلاکیفیت کہہ کر ممثلہ کاردکیا ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ اورمکحول رحمہ اللہ اپنے زمانہ کے تابعین میں سب سے بڑے عالم تھے جب کہ باقی چارامام تبع تابعین کے دور میں دنیا کے سب سے بڑے امام تھے، حماد بن زید اورحماد بن سلمہ جیسے ائمہ کا شمار بھی انہی کے طبقہ میں ہے۔
ابوالقاسم ازجی نے اپنی سند کے ساتھ مطرف بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے امام مالک بن انس سے سنا ۔۔۔۔۔۔۔جب کہ آپ کے پاس ایک ایسے شخص کا ذکر ہوا جواحادیث صفات کا منکر ہے کہ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کاقول نقل کررہے تھے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکے حکمرانوں (خلفاء راشدین)نے کچھ سنتیں مقررفرمائی ہیں کہ انہیں اخذ کرنا کتاب اللہ کی تصدیق، اطاعت الٰہی کی تکمیل اوراللہ کے دین کے لیے باعث قوت ہے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کو بدلے اورنہ کسی ایسی چیز کو دیکھنا جائز ہے جو ان کے مخالف ہو، جو ان کے ساتھ ہدایت طلب کرے ہوی ہدایت یافتہ ہے، جو ان کے ساتھ نصرت طلب کرے وہ منصور ہےاورجو ان کی مخالفت کرے اورمومنوں کی راہ کے علاوہ کوئی اورراہ تلاش کرے تواللہ تعالیٰ اسے اسی طرف پھیر دے گا جس طرف اس نے منہ کیا ہےاوراسے جہنم رسید کرے گا جوبدترین ٹھکانا ہے ۔‘‘
خلال نے ایسی سند کے ساتھ جس کے سب روای ائمہ ثقات ہیں، امام سفیان بن عیینہ سے روایت کیا ہے کہ ربیعہ بن بی عبدالرحمن سے، ارشادباری تعالیٰ :
﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ (طہ۲۰ /۵)
’’ رحمن، جو عرش پر مستوی ہے ۔‘‘
کے بارےمیں پوچھا کہ وہ کیسے مستوی ہوا؟توانہوں نے فرمایا:’’استواء غیر مجہول ہے، کیفیت غیر معقول (عقل میں نہ آنےوالی)ہے۔اللہ تعالیٰ نے پیغام بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واضح طورپر پہنچادیااورہم پر فرض ہے کہ اس کی تصدیق کریں یہ کلام ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے تلمیذ رشید امام مالک بن انس سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے۔مثلا ابوالشیخ اصبہانی اورابوبکر بیہقی نے یحییٰ بن یحییٰ سے روایت کیا ہے کہ ہم امام مالک بن انس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی آیا اوراس نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! ’’الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ کےحوالہ سے سوال ہے کہ استواء کی کیا کیفیت ہے ؟‘‘یہ سوال سن کر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سرجھکالیاحتی کہ آپ پسینے میں شرابورہوگئے اورپھر فرمایا:’’استواء غیر مجہول ہے، کیفیت غیر معقول ہے اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے اوراس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔‘‘پھر فرمایا کہ ’’میں تمہیں بدعتی سمجھتا ہوں ۔‘‘اورپھر آپ نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دیا جائے۔
امام ربیعہ اورامام مالک کا جو یہ قول ہے کہ استواء غیر مجہول، کیفیت غیر معقول ہے اوراس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے تویہ باقی ائمہ کے اس قول کے موافق ہے کہ صفات کو اسی طرح مانو جس طرح یہ بلاکیف آئی ہیں تو اس طرح انہوں نے کیفیت کے علم کی نفی کی ہے، صفت کی حقیقت کی نفی نہیں کی، اگریہ لوگ معنی سمجھے بغیر محض الفاظ پر ایمان لائے ہوتے تویہ نہ کہتے‘‘استواء غیر مجہول، کیفیت غیر معقول ہے ۔‘‘اورنہ یہ کہتے کہ ‘‘ان کو اسی طرح بلاکیف مانو جس طرح یہ آئی ہیں ۔‘‘ورنہ اس طرح استواء معلوم نہ ہوتا بلکہ حروف معجم کی طرح مجہول ہوتا اوراگر لفظ سے معنی سمجھ میں نہ آتے توپھر