کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 148
الرَّحِيمُ﴾ (البقرۃ۲ /۱۵۹۔۱۶۰)
’’تحقیق جو لوگ ہمار ے حکموں اورہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے)چھپاتے ہیں باوجود یکہ ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے )لیے اپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردیا ہے، ایسے لوگوں پر اللہ اورتمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں ہاں جو توبہ کرتے ہیں اوراپنی حالت درست کرلیتے اور(احکام الٰہی کو)صاف صاف بیان کردیتے ہیں تومیں ان کے قصور معاف کردیتے ہوں اورمیں بڑا معاف کرنے والا(اور)رحم والا ہوں ۔‘‘
پھر ہم یہ بھی کہیں گے کہ زیادہ محتاط یہ بات نہیں کہ صفات کے مسئلہ کو اللہ علام الغیوب کے سپرد کردیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صفات کو اپنے بندوں کے سامنے کھول کھول کربیان فرمادیا ہے، اپنی کتاب کریم میں اوراپنے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کی وضاحت فرمادی ہے ہاں البتہ ان کی کیفیت کو بیان نہیں فرمایا، لہذا واجب یہ ہے کہ ان کی کیفیت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا جائے نہ کہ ان کے معانی کے علم کو ۔اوریہ تفویض (اللہ کے سپرد کرنا)مذہب سلف نہیں ہےبلکہ یہ ایک نیا مذہب ہے، جو سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے، چنانچہ امام احمد اوردیگر ائمہ سلف نے اہل تفویض کی اس بدعت کا انکار کیا ہے، کیونکہ ان (اشاعرہ وغیرہ )کے مذہب کا تو تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اس انداز سے خطاب کیا ہے کہ اس کے معنی کو وہ سمجھتے ہی نہیں اوراس کی مراد کو وہ جانتے ہی نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اس سے پاک ہے کہ وہ ایسا انداز اختیار فرمائے۔اہل سنت اللہ تعالیٰ کے کلام کی مراد کو جانتے ہیں، اس کے اسماء وصفات کے تقاضے کے مطابق اس کی صفت بیان کرتے ہیں اوروہ اسے ہر اس چیز سے پاک سمجھے ہیں جو اس کی ذات گرامی کے شایان شان نہ ہو۔اہل سنت نے اللہ تعالیٰ کے کلام اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی روشنی میں یہ جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام امور میں کمال مطلق کے ساتھ موصوف ہے، جن کے بارے میں اپنی ذات گرامی کے حوالے سے اس نے خود خبر دی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔اب اس سلسلہ میں ائمہ سلف کے چند اہم اقوال ذکر کرتا ہوں تا کہ قارئین کرام کے سامنے یہ واضح ہوجائے کہ ہمارا موقف صحیح ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ‘‘الفتوی الحمویہ’’میں ذکر فرمایا ہے کہ امام ابوبکر بیہقی نے اپنی کتاب ’’الاسماء والصفات‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ امام اوزاعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم ۔۔۔جب بہت سے تابعین موجود تھے ۔۔۔یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے، اسی طرح ہمار ا ان صفات پر بھی ایمان ہے، جن کا ذکر سنت میں آیا ہے۔
اوزاعی۔۔۔۔جو کہ عہد تبع تابعین کےائمہ اربعہ (مالک، اوزاعی، لیث اورثوری)میں سے ایک ہیں۔۔۔۔نے اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے اوراس کی دیگر تمام صفات پر ایمان لانے کے متعلق کہا ہے کہ یہ قول تو تابعین سے منقول ہے۔
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نےیہ اس وقت فرمایا جب کہ جہم کا مذہب ظاہر ہوچکا تھا، جو اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا منکر تھا، نیز وہ صفات الٰہی کا بھی منکر تھا، امام اوزاعی نے یہ اس لیے فرمایا تھاتاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ سلف کا مذہب جہم کے مذہب کے خلاف ہے۔
ابوبکر خلال نے ’’ کتاب السنہ ‘‘ امام امام اوزاعی سے روایت کیا ہے کہ مکحول اورزہری سے احادیث کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا، ان کواسی طرح مانو جس طرح یہ آئی ہیں۔ولید بن مسلم سے بھی روایت ہے کہ میں نے مالک بن انس، سفیان ثوری، لیث بن سعد اور اوزاعی سے ان روایات کے بارے میں پوچا جو کہ صفات باری سے متعلق