کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 146
اس کے جو کتاب وسنت کے موافق ہو، چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ((كل يوخذ من قوله ويرد الا صاحب هذا القبر)) ’’اس قبر میں محواستراحت ہستی کے سوا ہرشخص کے قول کولیا بھی جاسکتا ہے اورردبھی کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ آپ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے، اسی طرح دیگرائمہ کرام سے بھی اس کے ہم معنی اقوال منقول ہیں۔ جس شخص کے لیے کتاب وسنت سے اخذ کرنا ممکن ہو، اس پر فرض ہے کہ وہ کسی کی تقلید نہ کرے اوربوقت اختلا ف اس قول کو لےلے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہواورجس کے لیے کتاب وسنت سے براہ راست اخذکرنا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لے جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (الانبیاء۲۱ /۷) ’’اگرتم نہیں جانتے تواہل علم سے پوچھ لو ۔‘‘ (۲)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے مجتہد تھے۔ شیخ صابونی لکھتے ہیں کہ’’ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس قدر بلند علمی درجہ کے باوجود مرتبہ اجتہاد تک نہیں پہنچے بلکہ وہ حنبلی مذہب کے پیروکارتھےاوراکثر وبیشترحنبلی مذہب ہی کی پابندی کرتے تھے ۔‘‘ یہ قول محل نظر بلکہ صریحا غلط ہے کیونکہ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ توبہت بڑے مجتہد تھے، آپ میں شروط اجتہاد بدرجۂ اتم موجود تھیں، مذہب حنبلی کی طرف آپ کاانتساب آپ کودائرہ اجتہاد سے باہر نہیں نکالتاکیونکہ اس انتساب سےمقصودصرف یہ ہے کہ مذہب کے اصول وقواعدمیں آپ امام احمد رحمہ اللہ سے متفق ہیں، اس سے یہ مقصود نہیں کہ آپ بلادلیل ہربات میں امام احمد کے مقلد ہیں۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا طرز عمل تو یہ تھا کہ جو قو ل دلیل کے زیادہ قریب ہوتا، آپ اسے اختیار فرمالیتےتھے۔ (۳)عقیدہ کی گمراہی بہت ہے، ابوالحسن اشعری نے اپنے مذہب سے رجوع کرلیا تھا۔ شیخ صابونی نے ذکر کیا ہے کہ عقیدہ کی وجہ سے اختلافات بہت کم ہیں نیزلکھا ہے کہ جو لوگ اشاعرہ کے مذہب کوگمراہ کہتے ہیں، ہم ان سے یہ کہیں گے کہ فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف رجوع کرو اورابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ابوالحسن اشعری کے بارے میں جو لکھا ہے اسے پڑھو تاکہ ہمیں بھی یہ معلوم ہوجائے کہ اشعریوں کے مذہب کو گمراہ کہنے والے خود جاہل ہیں۔ اس کے جواب میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ بلاشک وشبہ عقیدہ میں اختلاف کے سبب بہت سے فرقے گمراہ ہوئے، مثلا معتزلہ، جہمیہ، رافضیہ اورقدریہ وغیرہ بلکہ اشاعرہ بھی ان عقائد میں گمراہ ہیں جن میں انہوں نے کتاب وسنت اوراس امت کے بہترین ائمہ ہدایت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اورائمہ مجتہدین کی مخالفت کی ہے اوراللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات کی جو بے جا تاویل کی ہے۔یادرہے ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ اشاعرہ میں سے نہ تھے، اشعری اگرچہ ان کی طرف منسوب ہیں لیکن انہوں نے ان کے مذہب سے رجوع کرکے اہل سنت کے مذہب کو اختیار کرلیا تھا، لہذا ائمہ نے امام ابوالحسن اشعری کی تعریف کی ہے، اشاعرہ کے مذہب کی تعریف نہیں کی۔ جوشخص اشاعرہ کے ان عقائد پر اعتراض کرتا ہے، جن میں انہوں نے اہل سنت کے عقیدہ کی مخالفت کی ہے، اس پر