کتاب: مقالات و فتاویٰ ابن باز - صفحہ 144
دن کو پھیرتا ہوں ۔‘‘ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ’’ابن آدم کو یہ نہیں کہنا چاہئے :’’ہائے زمانے کی محرومی!کیونکہ میں زمانہ ہوں رات دن کو بھیجتاہوں اورجب چاہوں گا ان کو روک لوں گا ۔‘‘
زمانۂ جاہلیت میں عربوں میں یہ رواج تھا کہ انہیں جو آلام ومصائب پیش آتے، وہ انہیں زمانے کی طرف منسوب کردیتے اور کہتے کہ’’انہیں حوادث د ہرپہنچ گئے ہیں، انہیں زمانے نے تباہ بربادکردیا ہے ۔‘‘وہ شدائد ومشکلات پیدا کرنے والے کو گالی بھی دیتے تھے تو یہ گالی گویا اللہ تعالیٰ کو دیتے کیونکہ درحقیقت تمام امورکا فاعل تووہی ہے، لہذا انہیں منع کردیا گیا کہ زمانے کو گالی نہ دو، اس حدیث کے یہی معنی امام شافعی، ابوعبید، ابن جریر، بغوی اورکئی دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ سے منقول ہیں۔
’’ اقلب اللیل والنھار‘‘ ’’میں رات اور دن کو پھیرتا ہوں ۔‘‘کےمعنی یہ ہیں کہ رات دن میں جو بھی خیر وشر رونما ہوتا ہےوہ صرف اللہ کے ارادہ، تدبیر، اورعلم وحکمت سے ہوتا ہے اوراس میں اس کا کوئی سہیم وشریک نہیں۔وہ جو چاہتا ہے صرف وہی ہوتا ہےاورجو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، لہذا واجب ہےکہ دونوں حالتوں میں اس کی تعریف کی جائے، اس کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے اورتوبہ وانابت کے ساتھ صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، ارشادباری تعالیٰ ہے: ونبلو...ترجعون
’’اورہم تم لوگوں کو سختی اورآسودگی میں آزمائش کے طورپرمبتلاکرتے ہیں اورتم ہماری طرف ہی لوٹ کرآؤگے۔‘‘
امام مجدد محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ کتاب التوحید ‘‘ میں ایک باب قائم کیا ہے، جس کا نام ہے باب من سب الدھرفقدآذی اللّٰہ ’’جب کسی نے زمانے کو گالی دی، اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی ۔‘‘اس باب میں آپ نے مذکورہ بالاحدیث ذکرکرکےفرمایا ہےکہ یہ حسب ذیل کئی مسائل پر مشتمل ہے:
۱۔ زمانےکوگالی دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
۲۔ زمانےکوگالی دینے کا نام اللہ تعالیٰ کو ایذاءپہنچانارکھاگیا ہے۔
۳۔ فان اللّٰہ ھوالدھر پر غورکرنا چاہئے۔
۴۔انسان بسااوقات دشنام طرازہوتا ہے، خواہ وہ دل سے اس کا قصد نہ بھی کرے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس مضمون نگار خاتون نے، اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے۔۔۔عنوان قصہ میں زمانے کی طرف سختی کو منسوب کرکے غلطی کی ہے کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے تقدیر تصرف نہیں کرتی بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے ساتھ تمام اشیاء کا اندازہ مقررفرما رکھا ہے اوراللہ سبحانہ، کی طرف سے قساوت کو بھی منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تواپنے بندوں کے ساتھ رحم فرمانے والا ہے، ماں بھی اپنے بچے پر اس قدر شفقت نہیں کرتی جس قدر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے، لہذا واجب ہے کہ ہم اپنے قلم کو اس طرح کی لغزشوں سے بچائیں تاکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تعمیل ہو، توحید کی تکمیل ہو اوراس چیز سے ہم اجتناب کریں جو توحید یا کمال توحید کے منافی ہواورجیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، ذرائع ابلاغ کا حلقہ بہت وسیع ہے اورلوگ اس سے متاثر بھی بہت ہوتے ہیں، لہذا اگرہم اس طرح کے الفاظ استعمال کریں گے تووہ لوگوں میں عام ہوجائیں گے اوروہ انہیں بے محابا استعمال کرنے لگیں گے، خاص طور پر نسل نو ان کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لے گی، لہذا اس طرح کے الفاظ کو استعمال کرنے سے احتیاط