کتاب: مقالات توحید - صفحہ 67
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تشریح:
یعنی جو شخص اس کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ کے معنی کو سمجھتے ہوئے اور جانتے ہوئے زبان سے اقرار کرے اور اس کے ظاہری اور باطنی تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ﴾ [محمد:19]
’’جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘
لیکن کلمہ طیبہ کا ایسا اقرار جس سے نہ تو اس کے مفہوم و معانی کا علم ہو نہ یقین ہو، نہ اس کے تقاضوں کے مطابق علم ہو نہ شرک سے بیزاری ہو نہ قول و عمل میں اخلاص ہو، نہ دل اور زبان میں ہم آہنگی ہو اور نہ دل اور اعضاء کے کردار میں یگانگت ہو تو ایسی شہادت بالاجماع غیر نافع اور غیر مفید ہے۔
کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ نفی اور اثبات دونوں کو متضمن ہے۔ جملہ لَا اِلٰہَ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے اُلوہیت کی نفی کرتا ہے اور اِلَّا اللّٰہُ اللہ تعالیٰ کے لیے اُلوہیت کو ثابت کرتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث اُن عظیم احادیث میں سے ایک ہے جن کو جوامع الکلم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ حدیث عقائد کے تمام مسائل کو محیط ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اختصار کے ساتھ وہ تمام پہلو بیان فرما دیئے ہیں جن سے ایک انسان کفر کے مذاہب سے کٹ کر اسلام کے حصار میں آجاتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’اِلٰہَ‘‘ کا مطلب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
’’اِلٰہَ‘‘ اس معبود کو کہتے ہیں جس کی عبادت و اطاعت کی جائے، کیونکہ ’’اِلٰہَ‘‘ وہ ہے جس کی عبادت کی طرف دل از خود مائل ہو جائے، حقیقت میں یہی ذات عبادت کے قابل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی صفات کاملہ موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ محبوب خلائق ہو جاتا ہے اور مخضوع وہ ہے جس کے سامنے انتہائی خضوع کے ساتھ جھکا جائے۔ وہ ایسا محبوب اور معبود’’اِلٰہَ‘‘ہے جس کی