کتاب: مقالات توحید - صفحہ 37
﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الْفِضَّۃِ وَ الْخَیْلِ الْمَسَوَّمَۃِ وَ الْاَنَعَامِ وَ الْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ عَنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾ [آل عمران14]
’’لوگوں کے لیے نفسانی خواہش کی محبت مزین کی گئی ہے جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان زدہ گھوڑے اور مویشی اور کھیتی کی صورت میں ہے؛یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی محبت اسلام کی بنیادہے اسی محور کے گرد اسلام کی چکی گھومتی ہے۔ کسی شخص کا اسلام اسی قدر مکمل ہوگا جس قدر اس کی اﷲ تعالیٰ سے محبت بھی کامل ہوگی۔ اور جس کی محبت جتنی ناقص ہوگی اس کا اسلام بھی اتنا ہی ناقص ہوگا۔
جو شخص غیر اللہ سے ایسی والہانہ محبت رکھے جیسی محبت اللہ سے کی جاتی ہے یا کی جانی چاہیے؛ تو گویا اُس نے اس غیر اللہ کواس محبت میں اللہ تعالیٰ کا ہمسر اور برابر قرار دے لیا۔ اب یہ غیر اللہ محبت میں اس کا معبود ہو گا نہ کہ تخلیق اور ربوبیت میں ۔ کیونکہ لوگ ربوبیت اور تخلیق میں غیر اللہ کو معبود نہیں بناتے بلکہ محبت میں بناتے ہیں ۔ اس لیے کہ اکثر لوگوں نے غیر اللہ سے ایسی محبت قائم کر رکھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و توقیر اور اس کی کبریائی کا خیال بھی نہیں رکھتے۔
جنید بغدادی رحمہ اللہ نے علمائے کرام کی ایک مجلس میں محبت کی تعریف یوں بیان کی ہے:
’’بندہ اپنے آپ سے بے خود ہو، اپنے ربِّ کریم کے ذکرویاد میں مصروف ہو، اس کے حقوق کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو۔ دلی توجہ سے اس کی طرف نظر جمائے ہوئے ہو۔ ربِّ کریم کے ڈر اور خوف کے نور نے اُس کے دل کو جِلادیا ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے پیالے سے خالص مشروب پیتا ہو؛ اور اُس کے غیب کے پردوں سے اس کے لیے حیاء واضح ہو جائے۔ اگر وہ بولتا ہے تو اللہ