کتاب: مقالات توحید - صفحہ 33
’’میری قربت کے لیے بندہ جو بھی اعمال کرتاہے ان میں سے فرائض مجھے زیادہ پسند ہیں ۔‘‘
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ جن اُمور کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے، ان پر عمل پیرا ہونا اور جن سے روکا گیا ہے اُن کو ترک کر دینے کا نام عبادت ہے۔‘‘
عبادت کا معنی یہ بھی لکھا گیاہے کہ:غایت درجہ کا خشوع وخضوع اور تعظیم کا نام ہے ۔یہ عبادت اور بندگی صرف اس ہستی کی ہو سکتی ہے جسے تمام اسباب سے بالاتر کلی اختیار اور تصرف اور ملکیت و حاکمیت حاصل ہو۔ جس کی طرف بندہ ہر وقت اور ہر چیز میں محتاج ہو۔ اور وہ کلی طور پر غنی اور بے نیاز ہو۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
((اَلْعِبَادَۃُ عِبَارَۃٌ عَنِ الْإِعْتِقَادِ وَالشَّعُورِ بَأَنَّ لِلِمَعْبُوْدِ سُلْطَۃٌ غَیْبِیْیَۃٌ ( فِی الْعِلْمِ وَالتَّصَرَفِ)فَوْقَ الأَسْبَابِ یَقْدِرُ بِہَا عَلَی النَّفْعِ وَالضَّرِ،فَکُلُّ دُعَائٍ وَّثَنَائٍ وَّتَعْظِیْمٍ یُّنْشَائُ مِنْ ہَذَا الإِعْتِقَادِ فَہِيَ عِبَادَۃٌ۔)) [مدارج السالکین 1/40]۔
’’ یہ اعتقاد اور شعور کہ ہمارے حالات جاننے ،اور ان میں بااختیار خود تصرف کرنے میں ہمارے معبود(اللہ جل شانہ) کا ما فوق الأسباب غیبی قبضہ ہے ۔اور اسی اعتقاد کے تحت اپنے معبود کو پکارا جائے ، اور اس کی حمد وثنا کی جائے ،نذر ونیاز اور رکوع اور سجود سے اس کی تعظیم بجا لائی جائے ،تو یہ سب کچھ عبادت ہے۔‘‘
اس اعتقاد کے تحت وضو کرنا، نماز پڑھنا، چل کر مسجد آنا ،تمام چیزیں عبادت میں داخل ہیں ۔ اور معاذ اللہ اگریہی اعتقاد کسی پیر فقیر ، یا نبی ولی کے متعلق رکھا جائے، اسکے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھاجائے، اس کی قبر کو بوسہ دیا جائے ، قبرپر مٹھائی وغیرہ تقسیم کی جائے ، اس کے نام پر صدقہ و خیرات کیا جائے، اور اس عقیدہ کے تحت زندہ پیر کے ہاتھوں یا پاؤں کو بوسہ دیا جائے۔ تو یہ غیر اللہ یعنی اس پیر کی عبادت ہوگی۔بعض علمائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے: