کتاب: مقالات توحید - صفحہ 27
’’اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ؛تو(یہ تصورکرو)وہ تمہیں دیکھ رہاہے ۔‘‘ ایمان کے اجزاء اور اسلام کے ارکان، ایمان و عمل کے ظاہری و خارجی پہلو تو کتب احادیث و عقائد میں معلوم شدہ ہیں ۔لیکن دل کو مرتبہ احسان تک پہنچانے کے لیے تزکیہ نفس، نور باطن اور اخلاق کی پاکیزگی جیسے اعلی اوصاف اپنے اندر کیسے پیدا کرنے ہونگے؟۔ کیونکہ احسان جس کیفیت کی معراج کا نام ہے اس تک رسائی کا ذریعہ وہی نفع بخش ہوگا جو صاحب شریعت نے خود بیان کیا ہو۔خود ساختہ طریقے کچھ بھی فائدہ مند نہ ہوں گے بھلے وہ ظاہر میں کتنے ہی بھلے لگتے ہوں ۔ حقیقت میں احسان اعمال میں اخلاص اور ان کی ایک خاص کیفیت ہے جس کا تعلق ذوق اوروجدان اور احساس و شعور سے ہے۔ انسان کے دل میں جتنی للٰہیت ہوگی؛ خیر کا جذبہ ہوگا احسان اسی قدر زیادہ ہوگا۔ یہ ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ حدیث جبریل میں احسان کے مفہوم میں ایمان کے ادنی و اعلی درجے کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ جب جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ احسان کیا ہے؟ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔)) ’’ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو (یہ یقین رکھو کہ)وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ حدیث جبریل میں مذکور لفظ عبادت سے اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ عبادت اور بندگی سے مراد وہی امور ہیں جنہیں عرف عام میں عبادات سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلا نماز، روزہ، حج ، زکواۃ وغیرہ؛ اور انہی عبادات کا بجا لانا انسانی زندگی کا نصب العین ہے؛ تو یہ تصور غلط ہے۔ قرآنی تصورِ عبادت اور اسلامی مفہوم خیر وبھلائی اورنیکی اس قدر وسیع ہے کہ یہ انسان کی فکری اور عملی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ خلاصہ کلام: اسلام کا پیش کردہ نظام بندگی انسان کو درج ذیل خصائص کا جامع بنانا چاہتا ہے: عقیدہ کی سلامتی :.... عقیدہ پر ہی باقی تمام اعمال کی قبولیت اور درستگی کا مدار ہے۔