کتاب: مقالات توحید - صفحہ 22
اعتقاد اور اعضاء کے ساتھ عمل کانام ہے ۔یہ تمام اقوال صحیح ہیں ۔ان شاء اللہ
قرآن وسنت سے ثابت ہوتاہے کہ ایمان بڑھتااور کم ہوتا ہے۔ اور اسی طرح اہل ایمان کو ایک دوسرے پر درجات اور فضیلت حاصل ہے یعنی کوئی درجے میں بڑا اور کوئی ایمان وتقویٰ کے اعتبار سے کم وزیادہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ ٰایٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًَا وَّ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ﴾ [الانفال:2]
’’بیشک ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اﷲتعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اﷲکی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توان کے ایمان کواور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْآ اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ﴾ [الفتح:4]
’’وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون (اور اطمینان)ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ایمان میں اور بھی بڑھ جائیں ۔‘‘
سلف صالحین رحمہم اللہ نے ایمان کو صرف تصدیق کے ساتھ خاص کرنے کا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایمان میں اگرچہ تصدیق بھی شامل ہے، لیکن وہ صرف تصدیق کا نام نہیں ، بلکہ اقرا رواطمینان بھی اس میں شامل ہے۔
حدیث میں ایمان کے ارکان کابیان ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَ مَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الآخِرِ وَ أَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ۔))
’’(ایمان یہ ہے کہ)تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اسکے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لاؤ اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر