کتاب: مقالات توحید - صفحہ 20
ایمان
ایمان کا لغوی اور شرعی معنی:
ایمان کا لغوی معنی و مفہوم :
لفظِ إیمان باب ِ افعال کا مصدر ہے ، اس کے لغوی معنی میں دو مشہور اقوال ہیں :
۱۔ اکثر اہل لغت کا کہنا ہے کہ ایمان کا لغوی معنی تصدیق ہے ، وہ اس پر اجماع کا دعوی بھی کرتے ہیں ، چنانچہ علامہ ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
(( اِتَفَقَ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ اللُّغْوِیَّۃِ وَغَیْرِہِمْ أَنَّ الإِیْمَانَ مَعْنَاہٗ التَّصْدِیْقُ۔)) [تہذیب اللغۃ ؛5/ 513]
’’اہل لغت او ر دوسرے اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق ہے۔‘‘
اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
﴿ وَ مَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْکُنَّا صٰدِقِیْنَ﴾ [ یوسف : 17]
’’آپ ہماری تصدیق کرنے والے نہیں ، حالانکہ ہم سچے ہیں ۔‘‘
ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ا۔ م۔ ن (أمن)سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں ۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے امن پانا، اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے امن دینا۔‘‘
[ لسان العرب، 23 :13۔ تاج العروس من جواہر القاموس،23: 18]
کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔
یہاں ایمان بمعنی تصدیق ہے۔