کتاب: مقالات توحید - صفحہ 184
’’فرما دیجئے!کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب)کو پکار لونہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے؛ اورنہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی نبی یا ولی یا قطب یا دیگر کوئی ہستی کائنات کے کسی بھی کام میں ایک ذرہ بھر بھی اختیار اور تصرف نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں کسی چیز کی ملکیت حاصل ہے۔
پانچواں شبہ:....ان کا عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ نفع و نقصان کے مالک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس شبہ کے رد میں فر ماتے ہیں :
﴿قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰہُ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ لَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا﴾ [ الرعد16]
’’آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ فرما دیجئے:اللہ۔ فرما دیجئے : کیا تم پھر بھی اس کے سوا اور کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود اپنی جان کے بھلے برے کا اختیاربھی نہیں رکھتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی حکم دیا تھا کہ آپ علم الغیب جاننے اورنفع و نقصان میں سے کسی چیزکا مالک ہونے کی نفی کردیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ﴾ [الاعراف188]
’’فرما دیجیے:میں اپنی جان کے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا مالک نہیں ، مگر جو اللہ چاہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ اِنِّی لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ﴾ [الجن21]
’’فرمادیجیے:میں تمہارے لیے کسی نقصان یاکسی بھلائی کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘
جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی بھی نہ علم غیب جانتے ہیں