کتاب: مقالات توحید - صفحہ 182
’’اور جنہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں [وہ کہتے ہیں :]ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب کر دیں ۔‘‘ یعنی اولیائے کرام اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں ،چونکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہیں اس لیے وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتے ہیں اور ہماری مدد بھی کرتے ہیں ،اوراللہ تعالیٰ ان کی بات کو ر د نہیں کرتا۔چونکہ ہم ان کے مرید ہیں اور مرید ہونے کے ناطے وہ ہمارے احوال سے آگاہ بھی ہیں ۔ اس لیے ہماری فریاد ان کے آگے ہے اور ان کی فریاداللہ تعالیٰ کے سامنے۔اللہ تعالیٰ اس شبہ پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا آلِہَۃً بَلْ ضَلُّوْا عَنْہُمْ وَذٰلِکَ اِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ [الاحقاف28] ’’پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے کھو گئے، بلکہ دراصل یہ محض جھوٹ اور بالکل بہتان تھا۔‘‘ نیز ان عقائد پراللہ تعالیٰ ضرب شدید لگاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ﴿وَمَا کَانَ لَہُمْ مِّنْ اَوْلِیَآئَ یَنصُرُوْنَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾لشوری46 ] ’’اور ان کااللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی حمایتی نہ ہوگا کہ ان کو بچائے۔‘‘ اسباب کے بغیر مدد کو پہنچنے والا توصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ،بندوں میں ایسا کوئی ولی نہیں جو اسباب سے بالاتر مدد کر سکے یا مشکل کشائی اورحاجت روائی کرنے پر قادر ہو ۔ مگر اس کے باوجود جو لوگ اولیاء اللہ صالحین اور بزرگان دین کی پناہ میں آتے ہیں اور اولیاء اللہ کوہی سب کچھ سمجھتے ہیں ؛ اور اپنے تئیں انہیں وسیلہ اور سفارشی گردانتے ہیں تو پھر دیکھ لیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان کا ڈیرہ،ان کی پناہ گاہ،ان کا حصار اور قلعہ کس نوعیت کا ہے؟ اور وہ کتنے پانی میں ہے؟اور ان کے اس عقیدہ کی موجودگی ان کے اعمال کا کیا انجام ہوگا؟ نیز فرمان الٰہی ہے :