کتاب: مقالات توحید - صفحہ 169
بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ [التوبہ،71] ’’اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے [ولی] مددگار ہیں نیکی کا حکم کرتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔‘‘ اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو : ۱۔نیکی کی تلقین کرے۔ ۲۔ برائی سے روکے۔ ۳۔نماز قائم کرے۔ ۴۔زکو اۃ دا کرے۔ ۵۔ اللہ کی اطاعت کرے۔ ۶۔رسول کی اطاعت بجا لائے۔ یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جائیں وہ ولی ہیں ۔قرآن و حدیث میں یہ کہیں نہیں آیا کہ ولی وہ ہوتے ہیں جن سے کرامات کا ظہور ہو اور جھوٹے سچے قصے ان کے بارے میں معروف ہوں ۔حیرت ہے کہ آج ولیوں کے کئی ایک گروہ ہی پیدا نہیں ہوئے بلکہ ولی پیدا کرنے والی فیکٹریاں بن گئی ہیں اور بعض لوگ نسل در نسل ولی بنتے چلے جاتے ہیں ؛ خواہ ان کے اعمال و کردار کچھ بھی اور کیسے بھی ہوں ۔باپ مر گیا تو بیٹا گدی نشین بن کر ولی بن گیا پھر پوتا ولی بن گیا۔یوں ولیوں کی نسلیں پیدا ہوتی جاتیں ہیں اور ہوتی چلی جا رہیں ہیں ۔ان کو بعض جاہل لوگ’’بے محنت فقیر‘‘ کا نام دیتے ہیں ؛ یعنی انہیں یہ مقام و مرتبہ کسی بزرگ کی دعا سے بغیر کسی محنت سے مل گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی پیمانہ شریعت پر پورا اترتا ہو؛ا س کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے کہ وہ اللہ کا ولی ہے ۔باقی کسی کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ وہ اللہ کا ولی ہے ۔ کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان ظاہری طور پر ان چیزوں پر کاربند ہو؛ مگر اس کے دل میں کچھ