کتاب: مقالات توحید - صفحہ 168
’’ جو شخص صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے محبت کرے اور اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے کسی سے بغض وعناد رَکھے، اﷲ تعالیٰ کے لیے دوستی رکھے اور اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے عدوات رکھے تو ایسا شخص ہی اﷲ تعالیٰ کی دوستی حاصل کرسکے گا۔ اور کوئی شخص ان اُمور کے بغیر اِیمان کی مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا اگرچہ وہ بہ کثرت نمازیں ادا کرے اور روزے رکھے۔ آج کل عام لوگوں کی محبت صرف دنیاوی معاملات پر موقوف ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں کچھ سود مند ثابت نہ ہوگی۔‘‘ مسند احمد اور طبرانی میں ایک روایت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’انسان واضح طور سے ایمان کی روشنی محسوس نہیں کر سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لیے محبت نہ کرے اور اس کی رضا کے لیے دشمنی نہ رکھے، اور جب دوستی اور دشمنی اللہ تعالیٰ ہی کی رضاکے لیے کرے گا تو پھر اللہ کی قربت و محبت اور ولایت کا حقدار ہو جائے گا۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’ایمان کی مضبوط ترین کڑی یہ ہے کہ انسان کی دوستی اور دشمنی صرف اللہ ہی کے لیے ہو۔‘‘ [رواہ الطبرانی] خلاصہ کلام جن معنوں اور مفاہیم میں اللہ تعالیٰ ولی ہے،ان معنوں میں دوسرا کوئی ولی نہیں ہے ۔ باقی مومن بھی ولی ہے مگر وہ ولی ان معنوں میں ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے کام آنے والے،خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے ہوتے ہیں ۔ اور سب سے بڑی مددگاری جس میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز منحصر ہے؛ وہ یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر قائم رکھتے ہیں ۔چنانچہ ان معنوں میں دیکھیں ان اولیائے کرام کی صفات حمیدہ....کہ وہ ولی کیسے ہوتے ہیں ؟ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ