کتاب: مقالات توحید - صفحہ 141
عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾ [الزمر65] ’’یقینا آپ کی طرف بھی اورآپ سے پہلے (انبیاء)کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلاشبہ آپ کا عمل ضائع ہو جائیگا اور یقیناً آپ زیاں کاروں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘ یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ شرک تمام نیک اعمال کے ضیاع کا سبب ہے۔اس آیت مبارکہ میں خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سابقہ انبیاء علیہم السلام کوکیا گیا ہے۔ان حضرات کے اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی مسلّم محبوب اور برگزیدہ ہونے کے باوجود ان کو شرک سے ا س قدر خبردار کیا ہے کہ ایسی حرکت سے اعمال تباہ اوراللہ تعالیٰ سے دوری مقدر بن سکتی ہے۔حالانکہ ان سے عام گناہ کی توقع نہیں کی جاسکتی پھر شرک جیسا گناہ عظیم کیونکر صادر ہوسکتا ہے؟۔ در حقیقت اس آیت میں انبیائے کرام علیہم السلام کو مخاطب بنا کر عام آدمی کو سمجھایاگیا ہے کہ اگروہ اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اس کے اعمال تو بالاولیٰ تباہ وبرباد ہوجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادٍ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدَُ﴾ [ابراہیم 18] ’’جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے اعمال کی مثال راکھ کی ہے آندھی کے دن اس پر زور کی ہوا چلے اور اسے اڑا لیجائے۔ اس طرح جو وہ کام کرتے رہے ان پر ان کی کچھ دسترس نہ ہوگی یہی تو پرلے سرے کی گمراہی ہے۔‘‘ ائمہ مفسرین نے کہاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کے اعمال کو ثابت تو کیا ہے لیکن انہیں رائیگاں اوربے کار قرار دیدیا ہے ۔مفسرین کی بات سے یہ چیز واضح ہوگئی کہ اسلام کی ظاہری شرائط کے مطابق ان کے اعمال معتبر تھے لیکن کفر کی وجہ سے ان کے لیے سود مند نہ ہوئے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :