کتاب: مقالات توحید - صفحہ 135
نے شرک کا فتنہ پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے اس کو کٹوا دیا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوالہیاج اسدی سے فرمایا: کیامیں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس کام پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا:
(( أن لَّا تَدَعْ تِمثَالًا اِلَّا طَمَسْتَہٗ وَ لَا قَبرًا مُّشرِفاً اِلَّا سَوَّیتَہٗ۔))
’’ کوئی مجسمہ مٹائے بغیر نہ چھوڑنااورکوئی اونچی (پختہ) قبرزمین کے برابرکیے (یعنی ڈھائے) بغیرنہ چھوڑنا۔(رواہ مسلم)
اسی طرح قبروں پرچونااور رنگ وروغن کرنے،ان پر بیٹھنے،ان پرعمارت تعمیرکرنے اوران پر کتبہ لگانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے۔ قبروں پرمساجد بنانے ان پر عمارتیں تعمیرکرنے والوں اوران پر چراغاں کرنے اور میلے لگانے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے:
(( َنہَیَ رَسُولُ اللّٰہِ أَنْ یُّجَصَّصَ القَبرَ وَأَنْ یُّقعَدَ عَلَیہِ وَأَنْ یُّبنیٰ عَلیہِ َواَنْ یُّکتبَ عَلَیہِ۔)) (رواہ مسلم)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پرچونا (گچ) لگانے سے، ان پر بیٹھنے سے،ان پر عمارت تعمیرکرنے سے اوران پر کتبہ کگانے سے منع فرمایاہے۔‘‘
قبروں کی زیارت کے احکام
۱۔ شرعی زیارت:
یعنی قبروں کی اس وجہ سے زیارت کرنا کہ ، اس سے :
أ۔ آخرت کی یاد آئے گی۔ ب۔اہل قبرستان کو سلام کرنا۔
ج۔اہل قبرستان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا۔
۲۔ شرکیہ زیارت:
جو کہ توحید کے منافی ہے:کیونکہ اس میں غیراللہ کی عبادت بجا لائی جاتی ہے؛ اہل قبور کا خوف دل میں رکھا جاتا ہے اور ان سے خیر وبھلائی ملنے کی امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں ؛ اور قبروں پر چڑھاوے اور نذرانے پیش کئے جاتے ہیں ۔مثلًا:
۱:.... اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگے۔