کتاب: مقالات توحید - صفحہ 134
کرنا۔ اس کی کئی اقسام ہیں :
۱۔ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بعض اشخاص یا ان کی جاہ کا وسیلہ دینا۔
۲۔ اولیاء و صالحین کے نام کی نذرونیاز ماننا اور ان سے دعا کرنا۔
۳۔ اولیاء کی روحوں کے لیے ذبح کرنا اور ان کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا۔
۱۹: قبروں کی مجاوری:
قبروں کی تعظیم اوران پرمساجد یا مقبرے اور درگاہیں تعمیرکرنے اور عمارتیں بنانے کی ممانعت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے:
(( لَعَنَ اللّٰہُ قَوماً اتَّخذُوا قُبورَ أَنْبِیَا ئِہِمْ مَسَاجِدَ ۔)) (رواہ مسلم )
’’اس قوم پر اللہ تعالیٰ کی ہو جنہوں نے اپنے ابنیاء کی قبروں کو مسجد بنالیا۔‘‘
یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف کے ساتھ باقی تمام قبروں کے لیے بھی ہے ۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
((اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُّعْبَدُ۔ اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔ ))
’’ یااللہ! میری قبر کو وثن نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے۔ اُن اقوام پر اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہوا جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا تھا۔‘‘
حدیث مذکورہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ وہ قبر وثن کہلاتی ہے جسے قبروں کے پجاری ؛ درگاہوں کے مجاور [سجادہ نشین لوگ]چومنا چاٹنا اوران کی تعظیم کرناشروع کر دیں یا ان کے تابوتوں سے برکت حاصل کرنے کا ارادہ کریں ۔ افسوس کہ آج کل قبروں کی تعظیم اور ان کی عبادت کا فتنہ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ الامان والحفیظ۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اُس درخت کو جڑ سے کاٹ دینے کا حکم صادر کیا جس کے نیچے بیٹھ کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر لوگوں سے بیعت لی تھی۔ یہ درخت کاٹنے کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں وہاں جا کر اُس کے نیچے نماز پڑھنے لگ گئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ