کتاب: مقالات توحید - صفحہ 129
ایسے میں وہاں کسی کے اڑ کر بیٹھ جانے اور اپنے متوسلین کو بخشوا کر چھوڑنے کا کیا سوال، کوئی بلااجازت زبان تک نہ کھول سکے گا، اور اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ملے گی کہ جس کے حق میں سفارش کا اذن ہو صرف اسی کے لیے سفارش کرے اور سفارش میں کوئی بے جا بات نہ کہے۔ نیز سفارش کی اجازت صرف ان لوگوں کے حق میں دی جائے گی جو دنیا میں کلمہ حق کے قائل رہے ہیں اور محض گناہ گار ہیں ۔ اللہ کے باغی اور حق کے منکراوراس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے کسی رو رعایت اور سفارش کے مستحق نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اذن و اختیار کی پابندی کیوں ہے؟ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء علیہم السلام و رحمہم اللہ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں اور نہ ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے؟ کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے؟ اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت وکردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کوہر ایک کے پچھلے کارناموں اورکرتوتوں کا بھی علم ہے اوروہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجہ کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں ؟ پوری سزا کا مستحق ہے یا اس کے ساتھ تخفیف و رعایت بھی کی جا سکتی ہے؟ایسے میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اورصلحاء کو سفارش کی کھلی اجازت دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کردے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہوگا، اور ہر ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لائیں گے؛ جبکہ حال یہ ہوگا کہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں کہ جن لو گوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامہ اعمال کیسے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہوگا۔ نیک بندے جو دنیا میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے