کتاب: مقالات توحید - صفحہ 128
نہ کوئی دوست ہوگا نہ سفارش کرنے والا۔ اور جنہیں اللہ سزا دینا چاہے ان کیلئے کوئی شفاعت نہیں اور اللہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا؛حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسے مجرموں کے لیے نہ شفاعت کی اجازت ملے گی اور نہ ہی آپ ان کی شفاعت کرینگے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَّالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ﴾ [الانفطار19] ’’یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا، فیصلہ اس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہوگا۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿وَاَنذِرْہُمْ یَوْمَ الْآزِفَۃِ اِذْ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کَاظِمِیْنَ مَا لِلظٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیعٍ یُطَاعُ ﴾ [غافر18] ’’ڈرا دو اِن لوگوں کو اس دن سے جو قریب آلگا ہے۔ جب کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پئے کھڑے ہوں گے۔ ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہو گا اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے۔‘‘ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے یہ فرمودات ہیں ؛اور دوسری طرف بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کچھ بزرگ اور سفارشی ایسے زور آور ہیں کہ جن کی بات تو چل کر ہی رہتی ہے اور جن کی سفارش ٹل نہیں سکتی، بس ان کا دامن پکڑ لو اور آخرت سے بے فکر ہوجاؤ۔ جو مرضی کر لو چھڑا لیں گے ۔جبکہ قرآن کی زبانی وہاں پر تو مخلوق کی بزرگ ترین ہستیوں اور معزز ترین فرشتوں تک کو بھی بولنے کا یارا نہ ہو گا، وہاں تو کوئی بات بھی نہ کر سکے گا الا یہ کہ اللہ کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا لاَّ یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا﴾ [النباء38] ’’جس روز روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہونگے، کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔‘‘