کتاب: مقالات توحید - صفحہ 10
’’لوگوں کے لیے یہ ایک پیغام ہے تاکہ انہیں خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ معبودِ برحق ایک ہی ہے اور عقلمند ہوش میں آجائیں ۔‘‘
انبیائے کرام علیہم السلام کوجن بڑی بڑی تکلیفوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا اس کا سبب بھی یہی دعوتِ توحید تھی۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿کَذٰلِکَ مَا اَتٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنَ﴾ [الذاریات 52]
’’یونہی ہوتا رہا ہے اُن سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ جادوگر ہے یا مجنون۔‘‘
یہ تکالیف اتنی سخت ہوا کرتی تھیں کہ آج کے دور میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی ایک مثال اس حدیث سے ملتی ہے۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((أَتَیْتُ النَبِیَ صَلَی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَمَ وَہُوَ مُتَوَسِدٌ بُرْدَۃً وَہُوَ فِی ظِلِ الْکَعْبَۃِ وَقَدْ لَقِیْنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ شِدَّۃً۔ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَلَا تَدْعُو اللّٰہَ؟۔ فَقَعَدَ وَہُوَ مُحْمَرٌّ وَجْہُہٗ؛ فَقَالَ: (( لَقَدْ کَانَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَیُمْشَطُ بِمِشَاطِ الْحَدِیْدِ مَا دُوْنَ عِظَامِہِ مِنْ لَّحْمٍ وَّ عَصَبٍ مَّا یُصْرِفُہٗ ذلِکَ عَنْ دِینِہِ۔ وَیُوْضَعُ الْمِنْشَارُ عَلَی مِفْرِقِ رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِإِثْنَینِ مَا یُصْرِفُہٗ ذَلِکَ عَنْ دِیْنِہِ۔ وَلَیَتِمَنَّ اللّٰہُ ہٰذَا الأَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرُ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَائَ إِلیَ حَضَرَمَوْتَ مَا یَخَافُ ِإلاَّ اللّٰہَ۔)) [ البخاری:ج2 :ح: 1084]
’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے ۔چونکہ ہمیں مشرکوں کی طرف سے بہت اذیت پہنچی تھی اس لیے میں نے عرض کیا :یارسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دعاکیوں نہیں فرماتے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا