کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 99
ثانیا: آپ کے اس جملہ سے کہ اگر زمانہ نبوی میں کل اہلِ قریہ مکلف بالجمعۃ ہوتے الخ۔ ثابت ہوا کہ آپ کے نزدیک بعض اہلِ قریٰ مکلف بالجمعہ ہونا حضرت علی رضی الله عنہ پر مخفی رہ گیا اور اپنے جی سے ہر اہلِ قریہ[1]کو اماقتِ جمع سے منع کر دیا۔ لیجئے جس امر کی آپ نفی کرتے تھے وہ آپ ہی کے کلام سے ثابت ہو گیا۔ قال:آٹھویں دلیل صحیح بخاری میں ہے۔ عن ابن عباس قال ان اول جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المسجد عبد القیس بجواثی من البحرین۔ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ جو ہوا ہو مسجد عبد القیس میں ہوابمقام جواثا جو بحرین میں واقع ہیے۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک جواثا میں جمعہ قائم نہیں ہوا ۔ مسجد نبوی کے سوا کسی اور مقام میں جمعہ ہوتا ہی نہ تھا۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ ہجرت کے کتنے دنوںبعد جواثا میں جمعہ قائم ہوا۔ ٍٍ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے۔ وانما جمعوا بعد رجوع وفد ھم الیھم۔(فتح الباری:ص ۱۲۲ج۱) عبد القیس نے اپنے یہاں جمعہ جب قائم کیا۔ کہ ان کے وفد مدینہ سے ہوکر ان کے پاس واپس آگئے۔ مؤلف کہتا ہے کہ اس کے قبل یقینا آیت تحریم خمر نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبد القیس کو جو تعلیمیں کی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ
[1] قول علی رضی الله عنہ لا تشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع سے ظاہر یہی ہے کہ کسی قریہ میں جمہ جائز نہیں۔