کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 98
میں اجتہادواستنباط کو ضرور دخل [1] ہے۔اس واسطے کہ اس قول میں نہ امورماضیہ واہیہ کا بیان ہے۔ اورنہ کسی عمل کا ذکر ہے۔ جس کے کرنے سے کوئی مخصوص ثواب یا کوئی خاص عقاب حاصل ہو۔ اور نہ س میں کوئی ایسی بات مذکور ہے جس کا علم بدون ایقاف واعلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناممکن ہو۔ اس قول میں قرآنِ مجید کے ایک حکم عام کی اس کے بعض افراد کے ساتھ تخصیص ہے آیہ جمعہ کا کلمۃ{ فاسعوا }اہلِ مصرواہلِ قریٰ وغیرہم سب کو عام تھا۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے اس حکم عام کو اہل مصرکے ساتھ خاص سمجھا ہے۔ جس کی کئی خاص وجہ حضر ت علی رضی الله عنہ کو معلوم ہوئی ہو گی۔ پس حضرت علی رضی الله عنہ کا یہ قول من قبیل ما یعقل بالرای ہے۔ لہٰذا حضر ت علی رضی الله عنہ کا یہ اجتہادی قول قابل احتجاج نہیں۔اسی تقریرکی طرف اشارہ کیا ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اپنے اس قول سے وللا جتھاد فیہ مسرح فلا ینتحص للاحتجاج بہ قال پیر صاحب فہم سمجھ سکتا ہے کہ اگر زمانہ نبوی میں کل اہلِ قر یہ مکلف باقامت جمعہ ہوتے جو حضرت علی رضی الله عنہ پر ہ امر مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔ اور وہ اپنے جی سے ایسی شرط لگا نہیں سکتے تھے۔ اقول :اولا: اس امر کا حضرت علی رضی الله عنہ پر مخفی رہ جانا کچھ بعید نہیں ہے۔ دیکھو مخفیاتِ صحابہ رضی الله عنہ اور کسی حکم عام کو اجتہاد سے اس کے بعض افراد کے ساتھ مخصوص سمجھ کر باقی بعض افراد کے کارج کرنے کے لیے کوئی شرط لگا نا بھی مستعبد نہیں ہے۔
[1] ممکن ہے حضرت علی رضی الله عنہ کے اس فرمان کی وجہ سیاسی ہوں۔ چونکہ کوفہ کے گرد نواح میں خارجیوں نے حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف اودہم مچا رکھی تھی۔ اس بناپر حضرت علی رضی الله عنہ نے یہ فرمان جاری کر دیا ہو۔ تاکہ مرکزی مقامات (شہری علاقوں) کے علاوہ کس جگہ جمعہ نہ پڑھا یا جائے۔ اس فرمان کی وجہ ظاہر ہے۔ انتظامی اور سیاسی تھی۔ چنانچہ التعلیقان السلفیہ علی سنن النسائی میں ہے۔ وقول علی صدر من وجحۃ سیاسۃ سداً لنتنۃ خطباء الخوارج الغاشیۃ فی المواضع النائیۃ عن الامصار الجوامع فلا یصلح لمعارضۃ النصوص الصحیحۃ الواضحۃ واللہ اعلم۔