کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 97
نہیں ہو سکتا۔ دیکھو امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ حنفی حدیث قلتین کی نسبت لکھتے ہیں۔ خبر القلتین صحیح واسنادہ ثابت ولکن ترکناہ لانا لا نعلم ما القلتان ولا نہ روی قلتین اوثلا ثا علی الشک انتھٰی پس ہم بھی اثر علی رضی الله عنہ کی نسبت یہی تقریر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: اثر علی صحیح واسنادہ ثابت ولکن ترکناہ لا نا لا نعلم ما المصر الجامع ولانہ روی الا فی مصر جامع اومدینۃ عظیمۃ علیی الشک۔ اسی تقریر کی طرف اشارہ کیا ہے امام شافعی نے اپنے قول سے ولا ندری ما حدالمصر الجامع اخرجہ البیھقیفی المعرفۃ۔ چھٹا جواب اثر علی رضی الله عنہ سے ثابت ہے کہ نمازِ عید وجمعہ بجز مصر جامع کے سی قریہ میں جائز نہیں۔ اور آثار حضرت عمر رضی الله عنہ ،عثمان رضی الله عنہ اورابن عمر رضی الله عنہ وغیرہم سے ثابت ہے کہ نمازِجمعہ قریہ می بھی جائز ہے۔ جب صحابہ رضی الله عنہم بابت اشتراط مصر مختلف ہوئے ۔ تو اس صورت میں ہم کو احادیث مرفوعہ کی طرف مراجعت کرنا اور ان پر عمل کرنا واجب ہے۔ مقدمہ رسالہ ہذا میں احادیث مرفوعہ صحیحہ نقل ہو چکی ہے۔ جو بصراحت دلالت کرتی ہیں کہ بجز پانچ شخص (مریض ، مسافر، لڑکے، عورت،غلام)کے ہر مسلمان عاقل بالغ پر نمازِ جمعہ فرض ہے۔ مصر کا رہنے والا ہو یا قریہ کا یاکسی اورمقام کا۔ پس یہی احادیث مرفوعہ واجب اعلمل ہیں اور اثر علی رضی الله عنہ واجب الترک۔ اسی تقریر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اپنے س قول سے فلما اختلف الصحابۃ وجب الرجوع الی مرفوع۔ ساتواں جواب حضرت علی رضی الله عنہ کا یہ قول کہ لا تشریق ولا جمعۃ الخ ایک ایسا قول ہے جس