کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 83
اخریٰ اور باربار آنا مراد ہے۔ وہاں لفظ انتیابب مستعمل ہوا ہے۔ مجمع البحار میں ہے۔ انتابہ اذا قصد ہ مرۃ بعد مرۃ ومنہ حدیث یا ارحم من انتابہ المسترحمون۔ پس حدیث عائشہ رضی الله عنہا کا وہ مطلب جو شوق نے لکھا ہے’’یعنی یہ کہ باہر کے لوگ مدینہ طیبہ میں نمازِ جمعہ پڑھنے کو اپنے اپنے منازل اور عوالی سے نوبت بنوت آتے تھے‘‘ محض غلط اور باطل ہے۔ اور اگر بفرض محال انتیاب کے معنی نوبت بنوبت آنے کے لغت سے ثابت بھی ہوں تو بھی حدیث عائشہ رضی الله عنہا میں یہ معنی ہر گز مراد نہییں ہو سکتے ،بلکہ’’ مرۃ بعد اخریٰ‘‘ حاضر ہونا اور باربار ہی آنا مراد لینا متعین ہے۔ اس کی کئی وجہیں ہیں۔ وجہ اول نسائی نے اس حدیث کو بایں لفظ روایت کیا ہے۔ انما کان الناس یسکنون العالیۃ فیحفرون الجمعۃ الحدیث ۔دیکھو اس روایت میں بجائے نیتابوں کے یحضرون آیا ہے۔ اگر انتیاب کے وہ معنی مراد لیے جائے تو شوق نے لکھا ہے ۔ یعنی نوبت بنوت آنا دونوں روایتوں میں تخالف لازم آئے گا۔ کما لا یخفی علی المتأمل وجہ دوم صحیح مسلم میں من منا زلھم ومن العوالی ہے۔ اور العوالی اور منازلھم کے درمیان واوعطف کا دلیل ہے۔ اور امر پر کہ منازلھم سے مراد وہ منازل ہیں جو عوالی کے سوال ہیں اور یہ منازل عام ہیں۔ اس سے کہ مدینہ کے اندر ہوں یا مدینہ کے باہر اور عوالی سے درے ہوں۔ اورر اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان منازل کے سب لوگوں پر یا اکثر پر نمازِ جمعہ ضرور فرض تھی۔ پس اگر ینتابون کے وہ معنی مراد لیے جائیں جو شوق نے لکھا تو لازم آے گا کہ ان منازل کے لوگوں پر بھی نمازِ جمعہ فرض نہیں تھی۔ والازم باطل فلا زوم مثلہ۔