کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 74
جمعہ فرض ہے۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ اہلِ حدیث کے نزدیک بھی مسافر پر جمعہ فرض نہیں۔ کما مر مگر ہمارے الزامی اور تحقیقی جوابوں سے ان کل بے سروپاباتوں کی خوب خوب دھجیاں اڑ گئیں۔ اورشوق کی پہلی دلیل بالکل برباد ہو کر ہباء منثورا ہو گئی۔ ؎ بات تو تونے بنائی تھی یہاں خوب مگر تھی جو بگڑی ہوئی قسمت تو بنی خوب نہیں فصل واضح ہو کہ مؤلف نے(۱۳) کے حاشیہ میں اپنے اس دعویٰ پر کہ نمازِ جمعہ قبل ہجرتِ مکہ ہی میں فرض ہو چکی تھی، چند دلیلیں بیان کی ہیں ان دلیلوں کا جواب یہیں لکھا جاتا ہے۔ قال: اس کی چند لیلیں ہیں۔ منھا ما اخرجہ الدارقطنی علی ما قالہ الحافظ فی التلخیص عن ابن عباس قال اذن النبیﷺ الجمعۃ قبل ان یھاجر ولم یستطع ان یجمع بمکۃ فکتب الی مصعب بن عمیر ؓ الخ۔ اقول: اولا: معلوم نہیں کہ یہ روایت دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی کس کتاب میں ہے۔ سنن دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ میں ہم نے بہت تلاش کیا،مگر ہمیں نہیں ملی۔ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص میں نہ پوری سند نقل کی ہے اور نہ اس کے صحت وسقم سے کچھ بحث کی ہے۔ لہٰذا جب تک اس روایت کی پوری سند حال صحۃً وسقماً نہ معلوم ہو قابلِ احتجاج نہیں ہو سکتی۔ ثانیاً : اس روایت سے غایۃ مافی الباب نمازِ جمعہ کی اصل مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس سے نمازِ جمعہ کی فرضیت قبل الہجرت ہر گز ثابت نہیںہوتی ،بلکہ اس روایت سے فرضیت قبل الہجرت کی نفی البتہ نکلتی ہے۔ اس واسطے کہ اس روایت میں ہے ۔ فاجمعوا نساء کم اذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال من یوم الجمعۃ فتقر بوا الی اللہ برکعتین۔